تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے 

غم دوراں ہو یا غم جاناں پوری کیفیات اور گداز کے ساتھ صفحہ قرطاس پہ منتقل کرانا ایک کہنہ مشق اور مشاق شاعر کا کام ہے جو شاعری کے سمندر سے اس گوہر نایاب کو ڈھونڈ لاتا ہے جو معنی اور مطالب میں جداگانہ حیثیت رکھتا ہو یہ معرکہ احمد فراز کو حاصل تھا جنوری کے مہینے میں جنم لینے والا یہ شاعر شاعری کو اس آسمان پر لے جانے والا تھا جہاں وہ خود ماہ کامل بن کر چمکے رگوں میں اترتا درد اوراس درد میں غم جانان شامل ہو جائے تو درد بہت بے درد ہو جاتا ہے اوڑھنا اور بچھونا بن جاتا ہے احمد فراز یہ درد خود بھی محسوس کرتے تھے اور زمانے کو بھی سناتے تھے زندگی کا فلسفہ بھی عجیب ہے جس میں غم آکاس بیل کی طرح  وجود کی دیوار سے لپٹے اپنے ہونے کا احساس دلانے کیلئے پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور جب یہ غم غم جاناں کا لبادہ اوڑھ لیں تو  ہجر فراق انتظار اور بے یقینی کے احساس کو بڑھانے لگتے اسی کیفیت کے اظہار کیلئے فراز کہتے ہیں کہ…؎
 اس سے پہلے کہ بیوفا ہوجائیں 
 کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں 
وقت جتنی تیزی سے گزرتا ہے غم بھی اسی تیزی سے روح کے اندر سرایت کرتا رہتا ہے اور کسک بن جاتا ہے اور اس کسک میں بے وفائی شامل ہو جائے تو گذرے لمحوں کی دہلیز پر بیٹھ کر اذیت اور کرب برداشت کرنا اور ان کیفیات کو شاعری کا روپ عطا کرنا بذات خود تکلیف دہ امر ہے روح میں جذب ہوتی خاموڑ سسکیاں درحقیقت محبوب کی کج ادائیوں اور بے وفائی ہی کی داستان ہے جسے شاعروں نے موضوع سخن بنایا ہے فراز کہتے ہیں کہ
 اب اور کیا کسی سیمراسم بڑھائین ہم
 یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
فراز نے شاعری کو نیا رنگ اور آہنگ دیا جو کہ زبان زد عام ہوااور یہ خاصیت انہی کے حصے میں آئی کہ انہوں نے بے آواز گلی کوچوں میںریزہ ریزہ خوابوں کو تلاش  کیا انہوں نے محبت غم اور زندگی کی تثلیث سے اس درد آشوب کو تلاش کیا جس نے ہجر درد اور بے وفائی کے مارے ہوئے لوگوں کو وہ مرہم دیا کہ جو مچلتے اور برستے ساون میں یاد کی صورت میں ملتا لیکن یہ مرہم وقتی سکون تو دیتا لیکن دل کے اندر حبس کا موسم طاری کردیتاہے
 تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
 یہ جانتا ہوں مگر تھوری دور ساتھ تو چل
فراز کے ہاں محبوب سے بچھڑنے  کھو دینے اور محبوب کی بے وفائی کا ذکر بار بار ملتا اور یہ ڈر درحقیقت اس حزن کو پیدا کرتا ہے جس سے شعروں میں سوز اور گداز کی کیفیت جنم لیتی ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں
  دل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
 اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
 مہدی حسن نے فراز کی بہت سی غزلیں گائیں  درحقیقت  فراز کی شاعری اور مہدی حسن کی آواز نے وہ تال میل بنایا کہ جو غزلوں کو امر کرگیا 
  اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
 جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
فراز نے شاعری کو وہ اسلوب عطا کیا ہے جو انکو انفرادیت عطا کرتاان کے ہاں بات کہنے کا سلیقہ اور ڈھب اور ترنم اور موسیقیت ہی وہ خصوصیات ہیں جو اکو کو عہد سا بناتی ہیں

ای پیپر دی نیشن