تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے 

Jan 16, 2021

پروفیسر فہمیدہ کوثر

غم دوراں ہو یا غم جاناں پوری کیفیات اور گداز کے ساتھ صفحہ قرطاس پہ منتقل کرانا ایک کہنہ مشق اور مشاق شاعر کا کام ہے جو شاعری کے سمندر سے اس گوہر نایاب کو ڈھونڈ لاتا ہے جو معنی اور مطالب میں جداگانہ حیثیت رکھتا ہو یہ معرکہ احمد فراز کو حاصل تھا جنوری کے مہینے میں جنم لینے والا یہ شاعر شاعری کو اس آسمان پر لے جانے والا تھا جہاں وہ خود ماہ کامل بن کر چمکے رگوں میں اترتا درد اوراس درد میں غم جانان شامل ہو جائے تو درد بہت بے درد ہو جاتا ہے اوڑھنا اور بچھونا بن جاتا ہے احمد فراز یہ درد خود بھی محسوس کرتے تھے اور زمانے کو بھی سناتے تھے زندگی کا فلسفہ بھی عجیب ہے جس میں غم آکاس بیل کی طرح  وجود کی دیوار سے لپٹے اپنے ہونے کا احساس دلانے کیلئے پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور جب یہ غم غم جاناں کا لبادہ اوڑھ لیں تو  ہجر فراق انتظار اور بے یقینی کے احساس کو بڑھانے لگتے اسی کیفیت کے اظہار کیلئے فراز کہتے ہیں کہ…؎
 اس سے پہلے کہ بیوفا ہوجائیں 
 کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں 
وقت جتنی تیزی سے گزرتا ہے غم بھی اسی تیزی سے روح کے اندر سرایت کرتا رہتا ہے اور کسک بن جاتا ہے اور اس کسک میں بے وفائی شامل ہو جائے تو گذرے لمحوں کی دہلیز پر بیٹھ کر اذیت اور کرب برداشت کرنا اور ان کیفیات کو شاعری کا روپ عطا کرنا بذات خود تکلیف دہ امر ہے روح میں جذب ہوتی خاموڑ سسکیاں درحقیقت محبوب کی کج ادائیوں اور بے وفائی ہی کی داستان ہے جسے شاعروں نے موضوع سخن بنایا ہے فراز کہتے ہیں کہ
 اب اور کیا کسی سیمراسم بڑھائین ہم
 یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
فراز نے شاعری کو نیا رنگ اور آہنگ دیا جو کہ زبان زد عام ہوااور یہ خاصیت انہی کے حصے میں آئی کہ انہوں نے بے آواز گلی کوچوں میںریزہ ریزہ خوابوں کو تلاش  کیا انہوں نے محبت غم اور زندگی کی تثلیث سے اس درد آشوب کو تلاش کیا جس نے ہجر درد اور بے وفائی کے مارے ہوئے لوگوں کو وہ مرہم دیا کہ جو مچلتے اور برستے ساون میں یاد کی صورت میں ملتا لیکن یہ مرہم وقتی سکون تو دیتا لیکن دل کے اندر حبس کا موسم طاری کردیتاہے
 تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
 یہ جانتا ہوں مگر تھوری دور ساتھ تو چل
فراز کے ہاں محبوب سے بچھڑنے  کھو دینے اور محبوب کی بے وفائی کا ذکر بار بار ملتا اور یہ ڈر درحقیقت اس حزن کو پیدا کرتا ہے جس سے شعروں میں سوز اور گداز کی کیفیت جنم لیتی ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں
  دل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
 اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
 مہدی حسن نے فراز کی بہت سی غزلیں گائیں  درحقیقت  فراز کی شاعری اور مہدی حسن کی آواز نے وہ تال میل بنایا کہ جو غزلوں کو امر کرگیا 
  اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
 جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
فراز نے شاعری کو وہ اسلوب عطا کیا ہے جو انکو انفرادیت عطا کرتاان کے ہاں بات کہنے کا سلیقہ اور ڈھب اور ترنم اور موسیقیت ہی وہ خصوصیات ہیں جو اکو کو عہد سا بناتی ہیں

مزیدخبریں