اب نہ رہے کہیں کے ہم… !

جیسے بجھنے سے پہلے دیئے کی لو ٹمٹماتی ہے،اسی طرح ’ پی ڈی ایم‘ آخری ہچکی لے رہی ہے۔ مولانا کی بڑھکوں میں شدت سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ’پی ڈی ایم‘ کس مشکل سے دوچارہے۔گومولانا’ ناکامی‘ کے بیانیے کو غلط ثابت کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔یہی تگ ودوآخری ہچکی ثابت ہونے جا رہی ہے۔ گذشتہ روز لورالائی کے جلسے میں، مولانا اکیلے دکھائی دئیے، ان کے ساتھ نہ مریم تھی نہ بلاول۔ مبینہ طور پر یہ خبر بھی سُنائی دی کہ میاں صاحب نے مولانا کو پیغام بھجوایا ہے کہ ’ ڈٹے رہو۔اُدھر شہباز شریف کا موقف بڑے بھائی سے مختلف سُننے میں آ رہا ہے۔ استعفے نہ دینے اور ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا عندیہ دونوں بھائیوں کے الگ موقف کی چغلی کھا رہا ہے۔اکثریت کے استعفے نہ آنے پر یہ چیپٹر ہی بند کر دیا گیا ہے۔ بقول شخصے ضمنی انتخاب میں شمولیت اورسینیٹ کیلیے ناموں پر غور شروع ہے۔ محمد علی درانی کا’گرینڈ ڈائیلاگ‘ کا بیانیہ سسکیاں لیتے دم توڑ گیا۔ اُدھر نثار علی خان کے سیاست میں سر گرم ہونے کی خبر کابھی یہی حشر ہوا۔ ۔ ’ پی ڈی ایم‘ کے فوج اور حکومت مخالف بیانیے کا چورن نہیں بِک رہا ۔اُسے دھاندلی، مہنگائی، معیشت کی تباہی اور عوام کی ہمدردی کا تڑکا لگا کر بھی دیکھ لیا۔ محمد علی درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کو ’ پیغام رسانی‘ سے تعبیر کیاگیا۔ پیغام تھا کہ’ استعفے نہ دیں‘۔ آصف زرداری نے استعفوں کے بیانیے کو رد کیاتو اس کے محرکات واضح نہیں تھے مگر اب وہ معمہ بھی حل ہورہا ہے۔زرداری صاحب کی اچانک طبیعت کی خرابی ، ہسپتال منتقلی اورمیڈیکل بورڈ کی تشکیل سے لگتا ہے کہ’پلیٹ لیٹس‘ والی قسط دُہرائے جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔’ مولانا‘ کی اسلام آباد کی بجائے ’پنڈی‘ کا رُخ کرنے کی دھمکی دراصل ’ منت ترلے‘ سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ ڈی جی ، ’ آئی ایس پی آر‘ نے گذشتہ روز ایک طرف ’پی ڈی ایم‘ کویہ کہہ کر ’شٹ اپ کال‘ دی کہ ’ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے‘ تو دوسری طرف ’ پنڈی‘ آنے پر ’چائے پانی‘ کی پیش کش کر کے ’پی ڈی ایم‘ کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکال دی۔ جس کے فوراً بعد ’مولانا‘ کی’ پنڈی ‘کی بجائے اسلام آباد کا رُخ کرنے کی وضاحت سے سب کچھ عیاں ہوگیاکہ ۔اپوزیشن اُسی تنخواہ پر کام کیلئے رضامند ہے۔
 ’ پی ڈی ایم‘ کو غیر فطری اتحاد کہنے پر لوگوں کی تیوڑی چڑھ جاتی تھی۔ اب یہ غیر فطری اتحاد منطقی انجام کو پہنچے والا ہے تو نئی تاویلوں سے خود کو ڈھارس دی جا رہی ہے ۔اپوزیشن کابغیر کسی ثبوت ا ور متعلقہ فورم سے گریز کے باوجود دھاندلی کا رونا، دراصل اس عمل کو ’کیمو فلاج‘ کرنے کی احتیاطی تدبیر ہے۔ لے دے کر اپوزیشن کے پاس دھاندلی کے بیانیے کو تقویت دینے کیلئے ایک ہی دلیل ہے کہ’آرٹی ایس‘ میں خرابی پیدا ہوئی نہیں،کی گئی۔۔خرابی تک کی دلیل درست سہی مگر سوال یہ ہے کہ اس خرابی سے فائدہ کس کو پہنچا؟ پنجاب میں ’نون لیگ‘ اور سندھ میں’پی پی پی‘ کی جیت کچھ اور کہانی بتاتی ہے۔جب سسٹم کی خرابی کی اطلاعات آنا شروع ہوئیں اس وقت کے نتائج، بڑی تیزی سے ’پی ٹی آئی‘ کے حق میں آ رہے تھے۔ ’نون لیگ ‘اور ’پی پی پی‘کے بڑے بڑے برج الٹنے کے قریب تھے۔ مبینہ طور پر خواجہ آصف کا آرمی چیف کو فون اور شکست کا واویلا، اب طشت از بام ہو چکا۔ دوسرااس کا فائدہ ان قوتوں نے اُٹھایا جو عمران خان جیسے ’ اکھڑ‘ کی اکثریت سے خائف تھے۔جی ہاں سسٹم کی خرابی سے، ’ایک تیر سے دو شکار‘ ہوئے ،’پی ٹی آئی‘ کو سادہ اکثریت سے روکا گیا اور ’پی پی پی‘ کو سندھ اور ’ نون لیگ‘ کو پنجاب میں اکثریت دلائی گئی جو ان کے کسی کام نہ آ ئی،آزاد ارکین کو ساتھ ملانے میں ناکامی سے خواب ادھورے رہ گئے ورنہ ماضی کا دُہرایا جانا مشکل نہ تھا۔سینیٹ الیکشن میں ’پی ٹی آئی‘کی برتری کا بڑا شور ہے مگر کیا وہ قوتیں جنہوں نے سادہ اکثریت نہ لینے دی وہ پسند کریں گی کہ عمران خان ’طاقتور‘ہو کرسامنے آئے؟ کیوں کہ سسٹم میں ان قوتوں کا اثر و رسوخ اب بھی موجود ہے۔ ’پی ڈی ایم‘کا کوئی بھی بیانیہ نہیں چل رہا کیوں کہ عوام جان چکے ہیںکہ اگر ’پی ڈی ایم‘ کا موجودہ ٹولا ملک سنوارنے کی جدوجہد کیلئے نکلاہے تو ملک کو اس نہج پر پہنچایا کس نے؟ ڈھائی سالہ اقتدار والوں نے یا پنتیس سال اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے؟سینیٹ الیکشن میں ایک بڑا امکان ہے کہ مولانا سینیٹ کی نشست پر انتخاب لڑ کر اس داغ کو دھو دیں کہ وہ ’پارلیمان سے باہر‘ ہونے کا غم غلط کرنے کے بہانے ڈھونڈ تے ہیں۔ پارٹی کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ بھی کسی حد تک رک گئی ہے جو کسی ’سمجھوتے‘ کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔دینی مدرسوں کے بچوںکی جلسوں میں شرکت کی ممانعت سے’ مولانا‘ کا پلس پوائنٹ بھی خطرے میں ہے۔ اُدھروزیرِ داخلہ، دفاع، قانون ،سائنس اور اطلاعات کی مشترکہ کانفرنس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ’ مولانا!اسلام کو دیکھیں اسلام آبادان کی قسمت میں نہیں‘۔ ’پی ڈی ایم‘ کی جانب سے اچانک جلسے، استعفے اور دھرنے تیاگ کر لانگ مارچ کی ’باگیں‘ الیکشن کمشن کی جانب موڑنے سے’پی ڈی ایم‘ کی ناکامی کا مطلع صاف ہو گیا ہے۔۔!

ای پیپر دی نیشن