انتہا پسندی اور شدت پسندی آخرکار امریکی صدر ٹرمپ کو لے ڈوبی قانون فطرت ہے کہ انسان جو بوتا ہے اسے خود ہی کاٹنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ نے چھ جنوری کو اشتعال انگیز تقریر کرکے اپنی جماعت کے شدت پسند اور نسل پرست کارکنوں کو اشتعال دلایا اور انہوں نے امریکی تاریخ کا ایک افسوس ناک المیہ کر دکھایا۔ صدر ٹرمپ کے حامی واشنگٹن میں کیپٹل ہل کی بلڈنگ کے اندر داخل ہو گئے جہاں پر امریکن کانگریس نومنتخب صدر جوبائیڈن کی کامیابی کی سرکاری منظوری دے رہی تھی۔ صدر کے حامیوں نے اس قدر ہنگامہ آرائی کی کہ اس ہنگامہ میں پانچ امریکی شہری جان بحق ہو گئے۔ پوری دنیا نے کیمرے کی آنکھ سے دہشت گردی کے یہ مناظر دیکھے اور ان کو علم ہو گیا کہ دہشتگردی کسی خاص مذہب کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ دہشتگردی کا یہ واقعہ امریکہ کے 200 سالہ جمہوری چہرے پر ایک سیاہ داغ ہے ، جسے آنے والی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ امریکی تاریخ کے اس شرمناک واقعے کے بعد امریکن کانگریس نے صدر ٹرمپ کیخلاف مواخذے کی ایک قرارداد منظور کر لی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کی سلامتی ریاستی اداروں اور حکومت کو خطرے میں ڈال دیا۔ جمہوری نظام کو سخت دھچکا لگایا اور پُرامن انتقال اقتدار میں رکاوٹ ڈالی۔ صدر ٹرمپ نے بطور صدر عوام کے اعتماد کو مجروح کیا، لوگوں کو پُرتشدد احتجاج پر اُکسایا وہ قوم کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ اسے اپنے عہدے سے ہٹ جانا چاہیے۔ سینٹ کو چاہیے کہ وہ صدر ٹرمپ کو سزا دے-امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن 20 جنوری کو اپنے منصب کا حلف اُٹھائیں گے لہٰذا وقت کی کمی کی وجہ سے شاید صدر ٹرمپ مواخذہ کی تحریک سے بچ جائیں اور مواخذہ کا پراسیس مکمل نہ ہوسکے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد بھی سینٹ کارروائی مکمل کرکے صدر ٹرمپ کو سزا دیے سکتی ہے۔ امریکہ کے خفیہ ادارے ایف بی آئی نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی 50 ریاستوں میں مسلح احتجاج کا خطرہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے شکست کے باوجود انتخابات میں 70 ملین ووٹ لیے ہیں ان کو سفید فام نسل پرست امریکی شہریوں کی حمایت حاصل ہے لہٰذا یہ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ انتقال اقتدار پُرامن نہیں رہے گا اور پورے امریکہ میں پر تشدد احتجاج کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن چھاؤنی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ امریکہ میں چھ جنوری کو ہونے والے پُرتشدد واقعات نے علامہ اقبال کے ویژن کو درست ثابت کر دکھایا ہے جنہوں نے مغربی اور امریکی جمہوریت کو ’’دیو استبداد‘‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ جمہوری سیاسی نظام دراصل سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو تحفظ دینے کیلئے ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جمہوریت کو سماجی اور روحانی ہونا چاہیے جبکہ مغربی اور امریکی جمہوریت شیطانی ہے۔ علامہ اقبال کی معروف نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ آج بھی زندہ اور تابندہ ہے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکہ اور بھارت میں ٹرمپ اور مودی دونوں دیو استبداد کی صورت میں ظاہر ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے کئی ذرائع ابلاغ اور ٹویٹر نے صدر ٹرمپ کے بیانات پر پابندی عائد کر دی ہے تاکہ وہ مزید اشتعال پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک ریکارڈ پیغام میں اپنے حامیوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ جنہوں نے 6 جنوری کو ہنگامہ آرائی کی انہیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا یہ بیان مواخذے کی تحریک سے بچنے کی ایک کوشش ہے جیسے غالب نے کہا تھا
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
امریکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی اس سپر طاقت نے اخلاقی اقدار کو کھو دیا ہے جن کی بنیاد پر امریکہ کا سیاسی اور جمہوری نظام تشکیل دیا گیا تھا۔ امریکی آئین میں جتنی بھی ترامیم کی گئی وہ سب کی سب انسانی حقوق کے حوالے سے تھیں جن کو بل آف رائٹس کا نام دیا گیا۔ امریکی صدر روزویلٹ کی بیگم خاتون اوّل نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا The moral basis of democracyجس میں انہوں نے تحریر کیا کہ جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کا ان شہریوں کے ساتھ تعلق روحانی اور اخلاقی ہو جو کمزور اور محروم ہیں کیونکہ ان کا اعتماد حاصل کیے بغیر مضبوط اور مستحکم جمہوری نظام تشکیل نہیں پا سکتا۔ ایک مفکر نے اپنی کتاب میں تحریر کیا تھا کہ جب انسانیت بلوغت اور بصیرت کے اعلیٰ معیار پر پہنچ جائیگی تو انسان ایک کتاب لکھیں گے جس کا نام crimes of humanity ہوگا۔مستقبل کیانسان اس کتاب میں تسلیم کرینگے کہ ان کا سب سے بڑا جرم عدم برداشت تھا یہ جرم صدر ٹرمپ نے امریکہ کی تاریخ میں دنیا پر ثابت کر دکھایا ہے۔
عالمی اور سفارتی امور کے ماہرین کے مطابق جو بائیڈن کا بطورِ امریکی صدر انتخاب پاکستان کیلئے ایک خوشگوار خبر ہے۔ صدر ٹرمپ کے برعکس نو منتخب صدر جوبائیڈن پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حالات اور تاریخ سے بخوبی واقف ہیں وہ امریکی صدر اوبامہ کے دور میں امریکہ کے نائب صدر تھے اور اس حیثیت میں انہوں نے پاکستان کے کئی دورے کیے تھے اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کیلئے پاکستانی قیادت کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے تھے۔ جوبائیڈن افغان امن کا نازک اور اہم مرحلہ بہتر انداز میں مکمل کر سکیں گے۔ جوبائیڈن صدر ٹرمپ کی نسبت متوازن شخصیت کے حامل سیاست دان ہیں صدر ٹرمپ کا واضح جھکاؤ بھارت کی جانب تھا جبکہ جوبائیڈن کا رویہ متوازن ہو گا۔ ہرچند کہ امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلی سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی اور محوری نکتہ قومی مفاد ہی ہوتا ہے، البتہ امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلی سے جو گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے پاکستان بہترین سفارتکاری کے ذریعے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ جوبائیڈن کا رویہ پاکستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کی طرح سخت نہیں ہوگا۔ پاکستان کا خارجہ آفس اگر معیاری اور مثالی سفارتکاری کا مظاہرہ کر سکے گا تو امریکہ کے ساتھ عوامی اور قومی مفاد کے تقاضوں کے مطابق اپنے تعلقات بہتر اور خوشگوار بنا سکتا ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے اعتماد کو بحال رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ کشمیر کا تنازعہ حل ہو سکے اور افغان امن پراسس مکمل ہونے کے بعد جنوبی ایشیا میں مستقل اور پائیدار امن قائم کیا جا سکے جو امریکہ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔