معزز قارئین ! مَیں نے کئی سال پہلے مولانا فضل اُلرحمن کو ’’مولانا اِسلام آباد پسند ‘‘ کا خطاب دِیا تھا لیکن راولپنڈی کی ’’لال حویلی ‘‘ والے شیخ رشید احمد اور کئی دوسرے سیاستدانوں بھی مجھے "Royalty" دئیے بغیر اُنہیں ’’ مولانا اسلام آباد پسند‘‘ کہنا شروع کردِیا ۔ حزب اختلاف کی 11 سیاسی جماعتوں کی تنظیم "P.D.M" کے سربراہ کی حیثیت سے اُنہوں نے11 جنوری کو مالا کنڈ کے جلسہ عام میں یہ اعلان کردِیا کہ ’’ ہم (یعنی پی ڈی ایم کے قائدین ) اسلام آباد نہیں بلکہ راولپنڈی کی طرف ’’ لانگ مارچ ‘‘ کریں گے! ‘‘ ۔ یاد رہے کہ ’’عرصۂ دراز سے بعض سیاستدان ’’ جی ایچ کیو ‘‘ (General Headquarters) کو راولپنڈی کا نام دیتے ہیں ‘‘ ۔
’’چھڈ کے مدان نَسّ گئے !‘‘
شاعر نے کہا تھا کہ …؎
’’جیہڑے کہندے سن مَراں گے نال تیرے!
اُوہ چھڈ کے مدان نَسّ گئے!
…O…
یعنی ’’ جنہوں نے مولانا ’’ اسلام آباد پسند ‘‘ کے ساتھ جینے مرنے کا یقین دلایا تھا وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں ‘‘۔
معزز قارئین ! کل (15 جنوری )کو ایک قومی اخبار میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دو راہنمائوں ( سابق سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق اور سابق وزیر اطلاعات جناب قمر زمان کائرہ کا ایک مشترکہ بیان شائع ہوا ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ ’’ہماری پارٹیاں مولانا فضل اُلرحمن کی طرف سے ’’راولپنڈی ؔ تک لانگ مارچ ‘‘ کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ یہ اُن کی اپنی تجویز تھی ،’’ پی ڈی ایم‘‘ نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کِیا !‘‘۔یاد رہے کہ ( جیسی تیسی ) ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز اور پاکستان مسلم لیگ (ن) فوجی آمریت(فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان اور صدر جنرل محمد ضیاء اُلحق) کی پیداوار ہیں؟ ۔
’’ راولپنڈی دے بنگلے ! ‘‘
بقول شاعر ، ’’ راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ ‘‘ کے اعلان کے بعد ’’ مولانا اسلام آباد پسند‘‘ کی جمعیت میں ’’ٹوٹ پھوٹ ‘‘ ہوگئی ہے بلکہ ’’ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ ؟۔ معزز قارئین ! مَیں نے ’’ اقوام ؔمتحدہ وِچّ وِی میری پچھان ؔاے ،اُردوؔ!‘‘(10-9-8) جنوری کے کالم میں سابق سیکرٹری اطلاعات ونشریات ، بہاری ، اُردو، بنگالی ،انگریزی اور پنجابی سپیکنگ سیّد انور محمود کا تذکرہ کِیا تھا۔ آج مجھے ماشاء اللہ بقید ِ حیات ’’ ہفت زبان ‘‘ (Master of Seven Languages) اپنے سرگودھوی دوست برادرِ عزیز و محترم سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات چودھری اشفاق احمد گوندل بھی یاد آئے جو اکثر مجھے کتابیں تحفے میں دیتے ہیں ایک کتاب کا نام تھا ’ ’ پنجابی لوک گیت ‘‘۔ایک گیت کا ،عنوان ہے ۔’’ راولپنڈی دے بنگلے ! ‘‘۔
کسی شاعر نے راولپنڈی میں اپنے کسی محبو ب سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … ؎
’’راولپنڈی دے اُچّے اُچّے بنگلے!
سیر تے کرنی آں ،صدر بازاردا!
لَے وے تیرا میہنا سانوں
ساراجگ مار دا!‘‘
…O…
’’راولپنڈی کے اونچے اونچے بنگلے ہیں ۔ مَیں صدر بازار کی سیر تو کر رہی ہُوں لیکن (اے میرے محبوب) مجھے ساری دُنیا طعنے دے رہی ہے‘‘۔
معزز قارئین ! 11 جنوری ہی کو ، پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ پاک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے نہ ہی اُسے گھسیٹا جائے اور اگر "P.D.M" کے لوگ راولپنڈی آئیں گے تو ہم اُنہیں چائے پانی پلائیں گے ؟ ‘‘ لیکن اُنہوں نے خواہش کی کہ’’ ہم تو "Pizza" کھائیں گے !۔
’’لال حویلی والے شیخ رشید ! ‘‘
راولپنڈی کی لال حویلی میں صدیوں سے رہائش پذیر ( 11 دسمبر 2020ء سے ) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اکثر اپنی سیاسی گفتگو کو ’’ہلکی پھلکی موسیقی ‘‘ (Very Light, Very Lean Music) قرار دیتے ہیں ۔ یہ اُن کی ’’ ہلکی پھلکی موسیقی ‘‘ ہی تھی کہ اُنہوں نے ’’ مولانا اسلام آباد پسند‘‘ کو اسلام آباد آنے کی دعوت دے دِی تھی اور کہا کہ ’’ ہم ’’ مولانا اسلام آباد ‘‘ کو "Pizza" نہیں بلکہ ’’ حلوہ‘‘ کھلائیں گے لیکن اسلام آباد اُن کے نصیب میں نہیں ہے ۔
معزز قارئین ! مختلف ادوار میں شیخ رشید احمد پر کئی حکمرانوں نے چڑھائی کی لیکن ناکام رہے۔ پھر کیا ہُوا؟۔ میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ نے شیخ رشید احمد کی کسی ہم عُمر اور بہت بڑی "Fan" خاتون کے شیخ صاحب کے لئے مُخلصانہ جذبات کا اظہار کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … ؎
’’تَینوں ٹی وی تے ویکھاں تے
نچّاں وانگ مَلنگاں!
مَیں نئیں ڈردی، صدِیق فاروق توں
جَد چھنکاواں وَنگاں!
خُود کُش حملہ آور نہ بن
کہندَیاں تَینوں سَنگاں!
’’لال حویلی والڑیا مَیں
تیریاں خَیراں مَنگاں!‘‘
…O…
’’مدرسوں کے طلبہ !‘‘
معزز قارئین ! وزیراعظم عمران خان اور دوسرے کئی وزراء نے یہ اعلان کِیا ہے کہ ’’ ہم لانگ مارچ میں ’’مولانا اسلام آباد پسند‘‘ دینی مدرسوں کے طلبہ کو شریک ہونے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے۔ مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ نے تو کہا تھا کہ … ؎
’’ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا !
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ ! ‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ اگر ’’مولانا اسلام آباد پسند ‘‘ لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہُوئے راولپنڈی نہ پہنچ سکے تو وہ "Molana Failure Khan" (یعنی مولانا ناکام خان) ہی کہلائیں گے مجھے تو یہ بھی افسوس ہوگا کہ ’’مولانا لال حوؔیلی سے بھی دُور ہو جائیں گے ؟‘‘۔ چلو اچھا ہوا کم از کم لال حوؔیلی تو محفوظ رہی ؟۔