وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں قائم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں اس پہلی قومی سلامتی پالیسی میں ملٹری سنٹرلائزڈ کے بجائے معاشی استحکام اور شہریوں کے تحفظ کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے اور بھارت سے تعلقات کا محور کشمیر کو بنایا گیا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کے اجرأ کے موقع پر مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود تھے۔ پالیسی کی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پڑوسی ممالک کی جانب سے جارحانہ نظریے کا پرچار یا پرتشدد رویہ کسی بھی تنازعہ کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں طاقت کے استعمال کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ مسلط کی گئی تو مادر وطن کے دفاع کیلئے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائیگا اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت اور ہر صورت تحفظ کیا جائیگا۔ پالیسی کے مطابق خودانحصاری پر مبنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی جائیگی اور مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کیلئے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائیگی جبکہ دفاعی پیداوار‘ مواصلاتی نیٹ ورک کی مرکزیت‘ جنگی میدان کی آگہی اور الیکٹرانک وار فیئر صلاحیت کو بھی تقویت دی جائیگی۔ ملکی دفاع کیلئے اسلحہ کی دوڑ میں پڑے بغیر کم سے کم جوہری صلاحیتوں کو حد درجہ برقرار رکھا جائیگا۔ داخلی سلامتی کیلئے نیم فوجی دستوں‘ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی تربیت‘ جدت اور ضرورت پر توجہ مرکوز ہوگی۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ فضا‘ بحری‘ ساحلی سلامتی یقینی بنانے کیلئے ایوی ایشن سکیورٹی پروٹوکول اور بحری نگرانی بہتر کی جائیگی جبکہ بحری‘ فضائی‘ تجارتی سلامتی اور انسداد بحری قذاقی‘ جرائم کے خاتمے کیلئے بحری قوت کو مزید مضبوط بنایا جائیگا۔ سرحدی مسائل خصوصاً لائن آف کنٹرول‘ ورکنگ بائونڈری‘ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب اور قبائلی اضلاع کی ترقی پر توجہ دی جائیگی۔ غلط اور جعلی اطلاعات اور اثرانداز ہونے کیلئے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائیگا۔
کسی بھی ملک اور قوم کی بقائ‘ سلامتی اور استحکام کیلئے اسکی سلامتی پالیسی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ملک کی سلامتی ترقی اور خوشحالی کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ 1947ء میں جب سے یہ مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آئی ہے‘ اسکی سلامتی کے حوالے سے بانیٔ پاکستان کے ارشادات اگرچہ اسکی سمت اور رہنمائی مہیا کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں ہی ریاست اب تک اپنے داخلی اور خارجی سلامتی کے امور پر آگے بڑھتی رہی ہے لیکن اس مقصد کیلئے کوئی باضابطہ پالیسی تشکیل نہیں دی گئی۔ صرف آئین میں درجہ شقیں ہی کافی و شافی تصور کی جاتی رہیں جبکہ اس دوران ملک بہت سے داخلی اور خارجی بحرانوں سے گزرتا رہا۔ منتخب سول حکومتوں کی جگہ فوجی حکومتیں اقتدار سنبھالتی رہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا ظہور ہوا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا۔ صوبائیت اور لسانیت کی بنیاد پر علیحدگی کی تحریکیں جنم لیتی رہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تین بڑی جنگیں بھی ہوئیں‘ ان تمام چیلنجز اور آزمائش و ابتلا کے ادوار میں ہم کسی باقاعدہ قومی سلامتی پالیسی کے بغیر ہی معاملات طے کرتے رہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ملک میں جس طرح دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ خصوصاً نائن الیون کے واقعہ کے بعد ملک کی سلامتی کو جس طرح کے خطرات لاحق رہے۔ اس نے ملک کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے تناظر میں سول اور عسکری قیادتوں نے باہمی مشاورت کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا جس کی روشنی میں ملک سے دہشتگردی کے عفریت پر قابو پانے کیلئے آپریشن ضرب ِ عضب اور آپریشن رد الفساد کے نام سے مختلف اپریشنز کئے گئے اور فورسز کے جوانوں کے ساتھ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں شہرریوں کی جانوں کی قربانیوں کے بعد بہت حد تک اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن بھارت جیسے متعصب انتہاء پسند اور سخت متشدد ہمسایے کی موجودگی میں ملک کی سلامتی کو چیلنجز بدستور درپیش ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے بھی بھارت کی خفیہ ایجنسی کی سوچ کارفرما رہی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت کی وجہ سے بھی دہشت گرد تنظیموں کو شہ ملتی رہی۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں اور مسلح باغی گروہوں کو پوری طرح سپورٹ کیا جاتارہا۔ سو ان حالات میں ضروری تھا کہ پاکستان کی کوئی جامع اور ہمہ جہت قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی جاتی جو ہر اعتبار اور ہر حوالے سے ہمارے داخلی اور خارجی چیلنجز کو محیط کرتی اور جسے سول اور عسکری قیادت کے درمیان باہمی اعتماد اور مکمل ہم آہنگی کے ساتھ تشکیل دیا جاتا۔ موجودہ قومی سلامتی پالیسی 2022-26ء اس لحاظ سے ایک مکمل‘ جامع اور ہمہ جہت قرار دی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ’سلامتی کونسل سے قوم کاقبلہ درست کیا گیا ہے۔‘ جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا ’کہ ملٹری سکیورٹی قومی سلامتی کا صرف ایک پہلو ہے ،قومی سلامتی کے تمام پہلوئوں پر مشتمل جامع پالیسی کی تشکیل درست اور بروقت اقدام ہے ۔ یہ دستاویز مجموعی قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد گار ہو گی ۔‘ اس موقع پر وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان گزشتہ روز کی ون آن ون ملاقات اس حوالے سے سوچوں میں یک رنگی کی عکاس دکھائی دیتی ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کو معاشی پالیسی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے ۔گویا حکومت کو اس حقیقت کا پوری طرح ادارک ہے کہ مضبوط معیشت ہی مضبوط دفاع کی ضامن ہو سکتی ہے ۔ معیشت کمزور ہو گی تو دفاع بھی کمزو ر ہوگا ۔ لہٰذا معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے ہی سے ملکی بقا ممکن ہے اور اسی سے ملکی استحکام میں بہتری آئے گی اور اس کے نتیجے میں عوام اور ریاست کے درمیان مضبوط تعلق قائم ہو گا ۔ عام آدمی کی بہتری ، فلاح اور بہبود اس کی قومی امور میں شراکت اور اہم معاملات میں مشاورت بھی قومی سلامتی کے اہم ستون تصور کیے جاتے ہیں ۔اور قومی سلامتی پالیسی میں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے ۔
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز‘ ہاربرڈ وار اور داخلی و خارجی محاذوں پر سنگین صورتحال کے پیش نظر ایک ایسی سلامتی پالیسی ملک کی بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے جو شہریوں کی سلامتی کے گرد گھومتی ہو۔ موجودہ قومی سلامتی پالیسی بھی ہماری سلامتی پر اثر انداز ہونے والے روائتی اور غیر روائتی مسائل اور چیلنجز کے وسیع تناظر میں تشکیل دی گئی ہے جس میں دفاع ، داخلہ و خارجہ اور معیشت جیسے اہم شعبوں کو مستحکم کرنے کے تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات‘ مقبوضہ کشمیر پر اسکے غاصبانہ قبضہ‘ افغانستان سے دہشت گردوں کی دراندازی اور خطے کی سٹرٹیجک اور جیو اکنامک پوزیشن کے تناظر میں یہ ایک مربوط اور متوازن پالیسی ہے جو سول اور عسکری قیادت میں یکجہتی کی علامت ہے۔ اس پالیسی کی روشنی میں عساکر پاکستان اور مزید مضبوط ہوں گی۔ پاکستان کے داخلی امن اور استحکام کو تقویت ملے گی تو ملکی معیشت ٹھوس بنیادوںپر استوار ہو سکے گی جس کے نتیجے میں قومی سلامتی اور دفاع کے تقاضے پورے ہو سکیں گے اور ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہو سکے گا۔