پہلی دو قسطوں میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ حفیظ جالندھری نے اپنے تین پیش رو شعراء سے استفادہ کیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حالی، اکبر اور اقبال مقصدی شعراء تھے اور حفیظ بھی اپنے مزاج اور تربیت کی وجہ سے مقصدی شاعری کو پسند کرتے تھے۔ انھوں نے شروع میں شہرت تو رومانی شاعر کے طور پر حاصل کی اور ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ جیسی نظموں نے انھیں مشاعروں کا مقبول ترین شاعر بنا دیا لیکن ابھی وہ پچیس چھبیس سال کے تھے جب انھوں نے ’شاہنامۂ اسلام‘ کا آغاز کر دیا اور پھر تقریباً بیس سال تک مختلف موضوعات اور اسالیب کے تجربات کے باوجود ’شاہنامۂ اسلام‘ کی تکمیل کے لیے بھی برابر کوشاں رہے اور تقسیم ملک تک اس کام کو جاری رکھا۔ بہت ممکن ہے کہ ’شاہنامے‘ کا بنیادی خیال اور خاکہ انھوں نے ’مسدس‘ سے لیا ہو۔ پھر جوں جوں یہ طویل ہوتا گیا تو کچھ اور صورت اختیار کر گیا ہو گا۔
جب پاکستان بن گیا تو جن لوگوں نے مسلمانانِ ہند کی آزادی کے لیے جدوجہد کی تھی ان کو یقین تھا کہ یہ ایسا ملک بنے گا جہاں عبادات ہی کو اسلام نہیں سمجھا جائے گا بلکہ معاملات پر زیادہ زور دیا جائے۔ اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں مساوات پر بہت توجہ دی اور امیر و غریب کی تفاوت کو دور کرنے کے لیے حکمرانوں نے عملی مثالیں پیش کیں۔ جلبِ زر کی حوصلہ شکنی کی اور انسانی اقدار کی ترویج پر زور دیا۔ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم لیگ کی مقبولیت کا بڑا سبب یہی تھا کہ عوام یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں اور ہندوؤں کے دوگانہ استحصال سے ان کو نجات ملے گی اور پاکستان کے حکمران عملی طور پر یہ ثابت کریں گے کہ وہ مساوات کو معاشرے کی اصلاح کا رکنِ رکین سمجھتے ہیں اور اگر کوئی فرد یا طبقہ لوٹ کھسوٹ کرے گا تو ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
1958ء تک اس نئے ملک نے تقسیم کے تباہ کن اثرات سے کچھ نجات حاصل کر لی تھی کہ آمریت کے دور کا آغاز ہو گیا۔ بظاہر ترقی ہوتی دکھائی دی۔ اس کے کچھ ثمرات بھی ملے مگر ایک تو معیشت قرضوں کے بار تلے دبنے لگی اور دوسری طرف 1965ء کی جنگ کے تباہ کن اثرات نے چند سال کے اندر اندر سب کچھ ملیا میٹ کر دیا۔ حفیظ کی وفات 1982ء میں ہوئی۔ اس وقت تک کچھ سول حکومتوں اور کچھ ملٹری حکومتوں نے مل جل کر اپنے اپنے انداز میں حالات کو اتنا بگاڑ دیا کہ عام آدمی کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ ایک ہی قسم کا نظام چلتا رہا۔ معیشت، معاشرت، طبقاتی تفاوت، تعلیم، سیاست، انصاف، غرض پورا ڈھانچا ہی بگڑ گیا۔ ان حالات میں غربت کی لکیر کے نیچے بسر اوقات کرنے والے تو اپنے مصائب سے نبرد آزما ہوتے رہے اور جاگیردار، ان کے بعد سرمایہ دار اور ان کے بعد قسم قسم کے مافیاز مرے پر سو دُرے برسانے لگے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگر حفیظ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو ان حالات کی عکاسی مل جائے گی۔ حفیظ کے آخری شعر مجموعے چراغِ سحر (1973ئ) کو سرسری طور پر بھی دیکھا جائے تو اسی ناآسودگی کا مرقع دکھائی دے گا۔ چند شعر ملاحظہ کیجیے:
یہ کیا مقام ہے وہ نظارے کہاں گئے
وہ پھول کیا ہوئے وہ ستارے کہاں گئے
ایک اور دور کا وہ تقاضا کدھر گیا
امڈے ہوئے وہ ہوش کے دھارے کہاں گئے
باندھا تھا کیا ہوا پہ وہ امید کا طلسم
رنگینیِ نظر کے غبارے کہاں گئے
===
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ مری رات کا سویرا ہے؟
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے؟
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے؟
===
دیکھا جو کھا کے تیری کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یاروں کی برہمی پہ ہنسی آ گئی حفیظ
یہ مجھ سے ایک اور بری بات ہو گئی
===
نظر آتی ہی نہیں صورتِ حالات کوئی
اب یہی صورتِ حالات نظر آتی ہے
جلوۂ صبح کا اندھوں میں تو ہے جوش و خروش
آنکھ والوں کو وہی رات نظر آتی ہے
زندگی میں تو کوئی چیز انوکھی نہ رہی
موت ہی اب تو نئی بات نظر آتی ہے
جس شاعری کا آغاز ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ سے ہوا تھا اس کا انجام اس پر ہوا ’آنکھ والوں کو وہی رات نظر آتی ہے‘۔ حالی نے ’مسدس‘ میں ہندوستان کے مسلمانوں کو تفصیل سے بتایا تھا کہ تم ہر طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہو چکے ہو۔ پورے مسلم معاشرے میں امراء سے لے کر غرباء تک سبھی لوگ قومی سوچ اور دھارے سے ہٹ کر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ بجا رہے ہیں۔ سب ایک ایسی کشتی میں سوار ہیں جو ڈوبنے والی ہے لیکن کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ ’جو ڈوبے گی ناؤ تو ڈوبیں گے سارے‘۔
کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر
تو ہوتے ہیں مسخ ان میں پہلے تونگر
کمال ان میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر
نہ عقل ان کی ہادی نہ دین ان کا رہبر
نہ دنیا میں عزت نہ ذلت کی پروا
نہ عقبیٰ میں دوزخ نہ جنت کی پروا
===
نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا
نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا
ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا
تعیش پہ جینا نمائش پہ مرنا
سدا خوابِ غفلت میں بے ہوش رہنا
دمِ نزع تک خود فراموش رہنا
کہاں بندگانِ ذلیل اور کہاں وہ
بسر کرتے ہیں بے غمِ قوت و ناں وہ
پہنتے نہیں جز سمور و کتاں وہ
مکاں رکھتے ہیں رشکِ خلدِ جناں وہ
نہیں چلتے وہ بے سواری قدم بھر
نہیں رہتے بے نغمہ و ساز دم بھر
لیکن حالی کی فریاد کا کچھ اثر بھی ہوا۔ اس لے کو اکبر نے اپنے رنگ میں آگے بڑھایا۔ اقبال تک مسلمانانِ ہند کو احساس ہو چلا تھا کہ انھیں جدوجہد کر کے اپنا حق لینا ہے۔ حفیظ نے ’شاہنامہ‘ یہ سوچ کر لکھا تھا کہ ایک بار پھر ہم عروج کی طرف جا رہے ہیں مگر کیا ہوا؟ ’اک اور دور کا وہ تقاضا کدھر گیا؟‘ ہم میڈیا پر بہت شور مچاتے ہیں۔ اس میں سیاست دان بھی ہیں، دانش ور بھی ہیں، ہر قسم کے شعبوں کے ایکسپرٹ بھی ہیں مگر تنقید ہی تنقید ہے، دوسروں کی تردید ہی تردید ہے۔ کوئی نہیں بتاتا کہ اس شیطانی چکر سے ہم کیسے باہر آ سکتے ہیں؟ اپنے اپنے تعصبات اور اپنی اپنی اناؤں سے باہر نکلو، مل بیٹھو اور کوئی حل سوچو۔ اپنے اپنے مفادات کے لیے نہیں، اجتماعی مفاد کے لیے!۔۔۔۔۔۔ (ختم شد)