پرانی بات ہے ایک دن سیشن کورٹ کے قریب ایک بزرگ فائلوں کا انبار اٹھائے دکھائی دیئے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے بیٹے کو معمولی بات پر گائوں کے وڈیروں نے قتل کر دیا تھا۔ اس دن سے انصاف کیلئے لاہور آرہا ہوں۔ اس دوران نہ صرف جمع پونجی بلکہ زمینیں تک فروخت ہو گئیں مگر ابھی انصاف سے محروم ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور مزید کچھ کہے چل دیا۔ شہر اقبال سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری کو جس طرح لوگوں نے شدید تشدد کا نشان بنانے کے بعد مارا۔ اس کے بعد میڈیا پر اس واقعہ کی فوٹیج آنے پر پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کر لیا اور اب جیل میں ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی مکمل کی جائے گی۔ امید ہے کہ جلدہی اس واقعہ کے ملزموں کو قرارواقعی سزا مل جائے ورنہ عدالتوں میں انصاف کیلئے سالہاسال لگ جاتے ہیں۔ اگرچہ آج وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے تو اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں جرائم کی شرح بھی بڑھی‘ جب جرائم کی شرح بڑھے گی اور پولیس مقدمات کا اندراج کرکے اسے عدالتوں میں پیش کرے گی تو اس میں وقت درکار ہوتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج عدالتوں میں ججوں کی تعداد کم ہے اور مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہو ہے۔ سیشن کورٹ سے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں مقدمات کی بھرمار ہے اور لوگ انصاف کیلئے ان عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے عمر گنوا دیتے ہیں۔ اگر انصاف جلد ہو جائے تو اس کا مثبت اثر معاشرے پر پڑتا ہے اور اس سے برائی کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی نوعیت کا کیس ہو‘ اس میں وکلاء کی فیسوں میں بھی سائل کو کافی رقم ادا کرنی پڑتی ہے اور پھر وہ کیس کئی سالوں تک چلتا ہے۔ تاریخ پر تاریخ پڑتی ہے۔ اگر عدلیہ عام کیسوں اور سنگین کیسوں میں ایک وقت مقرر کر دے تو اس سے انصاف جلد ہوتا نظر آئے گا۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ دیوانی کیسوں میں لوگوں کی عمر کا بڑا حصہ عدالتوں میں دھکے کھاتے کھاتے ہی گزر جاتا ہے اور کئی بار وہ اس دنیا سے بھی گزر جاتے ہیں۔ آج بھی ہماری عدالتوں میں روزانہ ہزاروں کیس زیرالتوا ہیں اور ججوں کی کمی پر بھی بات ہوتی ہے مگر آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی بھی مجرم ہو‘ اس کو عدالت میں جب پولیس پیش کرے تو جرم کی نوعیت سے کم از کم ایک وقت ضرور مقرر کر دیا جاتا ہے کہ اس کا فیصلہ اتنے عرصے میں یا اتنی پیشیوں کے اندر کر دیا جائے گا۔ حال ہی میں ایک خبر نظر سے گزری تھی کہ کئی وکلاء تاریخییں لینے کیلئے بھی کئی طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ کبھی کسی دوسری عدالت یمں پیشی یا کبھی بیرون شہر جانے یا بیماری کا عذر بنا کر تاریخ پر تاریخ لے لی جاتی ہے۔ اس سے انصاف کی فراہمی میں یقینا تاخیر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کیلئے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے انصاف جلد مل سکے اور موجودہ عدالتی نظام کی بہتری کیلئے ایسے کام ہونے چاہئیں جس سے عدلیہ کا وقار بلند ہو۔ آج ملک بھر کی عدالتوں میں روزانہ ہی وکلاء پیش ہوتے ہیں۔ کچہری سے لیکر سیشن کورٹ اور وہاں سے ہائیکورٹ میں سائلوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ اگر عدالتوں میں ججوں کی تعداد بھی بڑھا دی جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ عدالت میں انصاف کیلئے آنے والوں کو جلد انصاف مل جائے گا تو اس کے یقینا اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ آپ دیکھیں کہ کئی ایسے واقعات ہوئے جن کے بارے میں میڈیا پر بھی بہت کچھ دکھایا گیا۔ اخبارات نے بھی اس بارے میں بہت کچھ لکھا مگر پھر آہستہ آہستہ وہ سب پس منظر میں چلا گیا۔ اگر کسی بھی جرم کرنے والے کو یہ معلوم ہو کہ اسے فوری طورپر سزا ہوگی تو وہ جرم کرنے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔ لہٰذا یہی گزارش ہے کہ جناب چیف جسٹس آف پاکستان ایسے اقدام کریں جس سے جلد انصاف ممکن ہو سکے۔ اب سانحہ سیالکوٹ پر سب کی نظریں ہیں اور امید یہی ہے کہ ایسا سنگین کام کرنے والوں کو جلد سزا ملے۔ اسی طرح اگر عدالتیں بھی سنگین جرائم کرنے والوں کو جتنی جلد ہوسکے سزا دے سکیں گے تو اس سے دوسرے بھی عبرت پکڑیں گے اور اس سے جرائم میں کمی ہو سکتی ہے۔ اگر جرائم کم ہونگے تو لازمی بات ہے اس سے عدلیہ پر بھی بوجھ کم ہوگا۔
انصاف کی جلد فراہمی مگر کیسے؟
Jan 16, 2022