دوستو یہ شعر مجھے گذشتہ دنوںمری میں ہونے والے سانحہ پر یاد آرہا ہے۔ سچ ہے، حادثہ ایک دم تو کبھی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ پہلی بار مری برفباری دیکھنے گئے تھے۔ ہرگز نہیں۔کیا مری والوں نے پہلی بار خودغرضی دکھائی۔ اس کاجواب بھی نفی ہے۔ عرض یہ ہے جناب جو اقدامات قیمتی جانوں کے بعد کئے گئے وہ پہلے کیوں نہ کئے گئے۔کیسا افسوسناک واقعہ رونما ہواکہ سیر و سیاحت کی غرض سے گھروں سے نکلے معصوم شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کیلئے دائر درخواست پرسماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ڈسٹرکٹ پلان ہوتا، کوارڈینیشن ہوتی تو کوئی ہوٹل والا زیادہ پیسے نہیں لے سکتا اور نہ ایسا واقعہ رونما ہوتا۔ سب لگے ہیں کہ مری کے لوگ اچھے نہیں، ان کا کیا قصور ہے۔ یہ این ڈی ایم اے کی ناکامی تھی۔ مری والوں کا اس میں کیا قصور؟‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے این ڈی ایم اے کو وزیراعظم کو اجلاس بلانے کیلئے خط لکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’اس قانون میں جتنے لوگ ہیں اور پوری ریاست مری میں مرنے والوں کی ذمہ دار ہے۔‘ اس کمیشن میں ریاست کا ہر طاقتور شخص موجود ہے ان کو کام کرنے دیں۔انہوں نے مزید استفسار کیا کہ این ڈی ایم اے کی کبھی کوئی میٹنگ ہوئی ہے؟ نومبر 2010ء کے بعد کون سے اجلاس ہوئے ہیں وہ بتائیں؟این ڈی ایم اے حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ گذشتہ 11 سالوں میں این ڈی ایم اے کمیشن کے صرف دو اجلاس ہوئے ہیں۔
سانحہ مری پر تو اسلام آباد ہائیکورٹ کی یہ سماعت ہی کافی ہے کہ قصور کس کا ہے؟دوستو۔قصور مری جانے والوں سے زیادہ ان اداروں کا ہے جوبروقت فعال نہ ہوئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یہ وہ شعبہ ہے جو آفات کے انتظام کیلئے جامع اور مربوط طریقہ کار کی قیادت کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد کراتی ہے اس کا تعلق موسمیات اور آفات کے خطرات سے ہوتاہے۔ تاہم افسوس صد افسوس۔اسلام آبادہائیکورٹ کی سماعت کے بعد تو یہ لگ رہا ہے کہ نجانے یہ شعبہ کیا کررہا تھا؟قابل ذکر بات یہ ہے کہ شعبہ جات تو موجود ہیںلیکن ضرورت انکے فعال کردار کی ہے جو کسی نہ کسی صورت فعال کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم لوگ بھی تو سنی ان سنی کردیتے ہیں ان کوبھی حالات کی سنگینی دیکھ کر وہاں کا رخ نہیںکرنا چاہئے تھا۔ دوستو با ت شعبہ جات کی ہورہی ہے۔ برفباری ہو،موسم بارش کا ہو،زلزلہ آئے یا کوئی بھی آفت یا مصیبت ہم سب کو اسکی تیاری کرنی چاہئے۔ ویسے بھی اب تو سائنس نے اتنی زیادہ ترقی کرلی ہے کہ اس قسم کی آفات کااندازہ قبل از ووقت ہوجاتا ہے اور اسکی تیاری کی جاسکتی ہے۔جیسے کہ بارش۔محکمہ موسمیات بارش کی پیشگوئی بہت عرصہ قبل کردیتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ جب زیادہ بارش آجائے تو ہمار ا شہر کچھ اداروں کی کارکردگی کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے اسکی وجہ پانی کا کھڑا ہوجانا ہوتا ہے،حالانکہ حکام نے اس بارے تو پہلے ہی حکم صادر کردیا ہوتا ہے کہ شہر میں بارش کی وجہ سے پانی کہیں کھڑا نہ ہو۔دراصل وجہ ہے کہ ہمارے شہر پرانی طرز پر ہیں اور اس میں کسی قسم کی پلاننگ نہیں ہے۔ اب جو جگہیں آباد ہورہی ہیں وہاںپر باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ہے لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیںکہ لوگوںکوبے یارومددگار چھوڑ دیا جائے اورآگے نہ بڑھاجائے۔بعض اوقات ایک حادثہ ایک قوم کو تعمیرکر جاتا ہے۔ہر بڑے حادثے کی طرح یہ حادثہ بھی اپنے پیچھے درد و الم کی بے شمار کہانیاں چھوڑ گیا ہے۔ہمارے ہاں موسمیات کا محکمہ کافی متحرک رہتا ہے۔ مری میں ہونے والی برف باری کے بارے میں بھی محکمہ موسمیات کئی دن پہلے پیشن گوئی کر چکا تھا۔ برف کے طوفان کے بارے میں بھی الرٹ جاری ہو چکا تھا۔ یہ اطلاعات متعلقہ محکموں تک بھی بھجوا ئی گئیں۔ لازم تھا کہ متعلقہ ادارے برف ہٹانے اور راستے صاف کرنے کا اہتمام کرتے۔ قدرتی آفات کے انتظامات کیلئے قومی سطح پر باقاعدہ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی موجود ہیں۔ معلوم نہیں کہ محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے بعد ان اداروں نے ذمہ داری اور تحرک کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ ویسے تو سر زمین پاکستان جسے کہنے والے مملکت خداداد بھی کہتے ہیں۔ اس میں سانحات اور حادثات کی کہانی اتنی طویل ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہاں سے شروع کریں کہاں ختم کریں، کسے بھول جائیں اور کسے یاد رکھیں لیکن جو ہوا افسوس ناک ضرورت اس امر کی ہے کہ سب اپنا اپنا کردارادا کریں خواہ وہ شہری ہو یاادارے۔جب تک اپنا کردارادانہیں کریں گے اس قسم کی غفلت سے نقصان اور سانحات ہوتے رہیں گے۔