اسلام آباد( خصوصی رپورٹر)مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت علی مقدم نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں بیٹی کے قتل کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کردیا۔عدالت کے سامنے اپنے بیان میں مزید کہا کہ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں میری بیٹی کو ناحق قتل کیا گیامیری بیٹی نہیں سارے ملک کی بیٹیوں کا مطالبہ ہے ملزم کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کی سماعت کی،گزشتہ روز نور مقدم کیس میں مدعی مقدمہ شوکت مقدم کا بیان قلمبند کرلیا گیا ،مرکزی ملزم کے وکیل اسٹیٹ کونسل سکندر ذوالقرنین سلیم کے علاوہ تمام وکلا نے جرح مکمل کر لی ۔عدالت نے تفتیشی افسر عبد الستار خان کو پیر کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کر لیا ۔مرکزی ملزم کے وکیل اسٹیٹ کونسل سکندر ذوالقرنین سلیم بیماری کے باعث پیش نا ہوئے ۔دوران سماعت ظاہرجعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین کے جونیئر وکیل نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سکندر ذوالقرنین کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے سے متعلق بتایا اور ان کو جرح کرنے کے لئے آئندہ سماعت تک مہلت کی استدعا کی جس کو پہلے تو عدالت نے نہیں مانا لیکن بعد پیر تک مہلت دے دی اور عدالت نے وکیل اکرم یشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قریشی صاحب آ پ کی وجہ سے وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کو اسٹیٹ کونسل مقرر کیا تھا آج بھی مجھے یاد ہے اگر سکندر ذوالقرنین نہیں آتے تو دوسرا اسٹیٹ کونسل موجود ہے وہ جرح کرلے میں اس بات پر کیس ملتوی نہیں کروں گا اس بات پر ہاتھ جوڑ کر کھڑا نہیں ہو سکتا ہماری بھی عزت ہے ہم نے دیکھنا ہے بشارت اللہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ پیر تک کیس ملتوی کردیں سکندر ذوالقرنین سلیم ٹیکا لگا کر آجائیں گے جج نے کہا کیسے کورونا کا مریض آسکتا ہے یہاں تو سارے صحافی بھی بھاگ جائیں گے وکیل اسد جمال نے کہا چھ چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوجائیں عدالت نے کہا مدعی مقدمہ جس کا بیان قلمبند ہونا ہے وہ کدھر کھڑا ہو گا ۔مدعی کے وکیل شاہ خاور نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں فئیر ٹرائل کے لئے یہ پیر کو آنا چاہییں تو آجائیں جرح کرلیں ۔ملزمان کے وکیل نے ظاہر جعفر کو دیگر ملزمان کے ساتھ کمرہ عدالت نا لانے کی نشاندہی کی تو عدالت نے آج وہ کسی سے لڑا ہے جس پر ملزمان کے وکیل نے کہا وہ ویل چئیر پر ہے ۔دوران سماعت بیان ریکارڈ کروانے سے قبل شوکت علی مقدم سے حلف لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ بیان سے پہلے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی میں پہلی بار کسی عدالت میں پیش ہوا ہوں، اگر بات پروٹوکول کے مطابق نہ ہو تو درگزر کر دیجیے گا جس کے بعد جج نے انہیں بیان ریکارڈ کروانے کی ہدایت دی۔نور مقدم کے والد کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی بیوی 19 جولائی کو کچھ کام کے لیے گھر سے نکلے تھے اور جب وہ اپنے گھر واپس آئے تو نور وہاں نہیں تھی۔انہوں نے بتایا گیا کہ نور کافی دیر تک واپس نہیں آئی، جب شوکت کی اہلیہ واپس آئی تو نور کو فون کیا لیکن نور کا موبائل بند تھا۔شوکت علی مقدم نے بتایا کہ اس کے بعد اس نے نور کو ڈھونڈنا شروع کیا اور جب نور نے ان کا فون اٹھایا تو اس نے کہا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے اپنی سہیلیوں کے ساتھ لاہور جارہی ہے اور اپنے والدین سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں۔ان کا کہنا تھا کہ میں ظاہر کے گھر والوں کو جانتا ہوں، 20 جولائی کو ظاہر نے مجھے دوپہر کے وقت دو نمبروں پر کال کی اور کہا کہ نور اس کے ساتھ نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بعد ازاں رات 10 بجے انہیں کوہسار تھانے سے کال آئی جس میں اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے اور انہیں پولیس اسٹیشن بلایا گیا۔شوکت مقدم نے بتایا کہ وہ تھانے پہنچے تو انہیں ایک گھر لے جایا گیا جو ظاہر کا گھر تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے گھر کے اندر جاکر دیکھا کہ نور کو بیدردی سے قتل کردیا گیا ہے اور اس کا سر تن سے جدا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نور کی لاش کی شناخت کی اور اپنا دستخط شدہ بیان اسسٹنٹ سب انسپکٹر زبیر مظہر کو دیا اور بعد میں موت کی وجہ سے متعلق رپورٹ پر دستخط کیا تھا۔شوکت علی مقدم نے کہا کہ انہوں نے نور کی لاش 21 جولائی کو پوسٹ مارٹم کے لیے حوالے کی تھی۔انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ 23 جولائی کو انہیں نور کے موبائل کی تفتیش اور بازیابی کے لیے بلایا گیا تھا اور انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ ظاہر سے پوچھ گچھ کے اگلے روز تھانہ کوہسار گئے تو ملزم نے انکشاف کیا کہ اس نے نور کو 18 جولائی کو فون کرگھر بلایاتھا اور قتل کرنے سے قبل اس کا موبائل ضبط کر لیا تھا۔شوکت نے بتایا کہ ظاہر کی رہائش گاہ پر جانے پر فون الماری سے ملا۔ظاہر کے والد اور شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ خان نے پھر شوکت مقدم کے بیان پر جرح کی۔انہوں نے شوکت مقدم سے کہا کہ وہ تصدیق کریں کہ کیا نور کا انہیں بتائے بغیر ان کے گھر سے نکلنا معمول تھا، انہوں نے مقتولہ کے والد سے اس بارے میں بھی سوال کیا کہ انہوں نے نور کو کس جگہ تلاش کیا تھا اور کیا انہوں نے تفتیش میں اس کے دوستوں کے نام فراہم کیے تھے۔شوکت علی مقدم نے جواب دیا کہ نہیںمیں نے کسی دوست کا نام نہیں لیا اور فون کال آنے کے بعد میں نے نور کو تلاش نہیں کیا۔تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی کی جرح کے دوران سوال پر شوکت مقدم نے کہا کہ انہیں اس پولیس افسر کا نام یاد نہیں جس نے انہیں فون کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایسی خوفناک خبریں موصول ہوئی ہیں کہ مجھے نام یاد نہیں ہے۔شوکت مقدم نے کہا کہ انہوں نے 20 جولائی کی رات اور 21 جولائی کی صبح سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی، وہ جعفر خاندان کے علاوہ کسی دوسرے ملزم کو نہیں جانتے۔شوکت مقدم کی موجودگی میں تھانے میں ملزم ظاہر جعفر کے اعتراف جرم کے حوالے سے پہلے سے ریکارڈ کرائے گئے بیان کو ملزمان کے وکلا کے اعتراضات کے بعد گزشتہ روز کے بیان کا حصہ نہیں بنایا گیا البتہ جو درخواست شوکت مقدم نے دی تھی اس کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا ۔شوکت مقدم نے کہا کہ بعد کی درخواستوں میں ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس کے خلاف کاروائی کی درخواست کی ۔عدالت نے مزید کاروائی کے لئے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
نورمقدم قتل کیس
مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت علی کاملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ
Jan 16, 2022