شام کے سائے ڈھل رہے تھے افق پر نارنجی روشنی پھیل رہی تھی میں حسب عادت سڑک کنارے فٹ پاتھ پر سیر کررہاتھا کہ میری نظر جلتے بجھتے جگنوؤں پر پڑی تجس نے مہمیز لگائی چل کر دیکھا جائے اصل ماجرا کیا ہے؟ یہ واقعہ چند سال پہلے جرمنی کے شہر بون سے تقریباً بیس پچیس کلومیٹر سینٹ آگسٹائن قبصے کے مضافات کا ہے جہاں میں چند دنوں کے لیے ٹھہرا ہوا تھا۔ سینٹ آگسٹائن عیسائی سکالر کے نام سے منسوب ہے جہاں عیسائیت کی تعلیم کی سب سے بڑی مذہبی جامعہ ہے جس سے اس صدی کے ربع اول تک ہرسال عیسائی مشنریوں کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اطراف عالم میں تبلیغ کے لیے روانہ کیا جاتا تھا۔ خیر سیر کرتے کرتے جب میں ان جلتی بجتی روشینوں کے قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ اصل میں روشنیاں ایک چھوٹے سے قریبی قبرستان میں ہر قبر کے ہالے میں لگے ہوئے ان رنگ برنگے بلب سے پھوٹ رہی ہیں جو مرنے والوں کے لواحقین نے ان کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے ان قبروں کے ارد گرد نصب کررکھے ہیں قبرستان کی فضا روشن اور صاف ستھری اور رنگ برنگے مہکتے پھولوں سے مزین تھی اور ان کے درمیان جگنوؤں کی طرح جلتے بجھتے بلب پورے ماحول کو سر شام سحر انگیز بنا رہے تھے۔ اندر جاکر دیکھا تو ایک ضعیف جرمن خاتون بڑی عقیدت اور احترام سے ان قبروں پر جھکی سنگ مرمر کی تختیوں اور لوح کی جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی۔ میں کچھ دیر رک کر قبروں میں آسودہ خاک ان پیاروں کے ساتھ اس کے اس اظہار عقیدت کو دیکھتا رہا تو یہ خواہش ہوئی کہ آگے بڑھ کر اس سے گوتن مارگن (جرمنی میں علیک سلیک) ہی کرلوں اور اس سے ان بچھڑنے والوں کے بارے پوچھوں مگر میری یہ کوشش ضرور رہی کہ عقیدت کے اس اظہار میں میری جسارت کہیں بے جامداخلت ثابت نہ ہو لہذا جتنا عرصہ میں وہاں کھڑا یا ادھر اُدھر گھومتا رہا وہ اپنی اس لگن میں مگن رہی اور اسے میرے آنے کا احساس تک نہ ہوا لہذا میں اس سے بات کئے بغیر واپس لوٹ آیا مگر دل ہی دل میں بچھڑنے والوں سے اس کی اس عقیدت کو سراہتا رہا۔
جب میں برطانیہ سے بلیجیم اور ہالینڈ سے ہوتے ہوئے بذریعہ سڑک جرمنی جانے کا پروگرام بنا رہا تھا تو میرے اکثر برطانوی دوستوں اور ساتھیوں کا یہی مشورہ تھاکہ چھوڑو وہاں جاکر کیا کرو گے تاہم یورپ میں آکر سب ملکوں میں نہ جانا بھی میرے فطری جذبہ تجس کے لیے گراں تھا اور خاص کر ایک تحریر جس نے میرے اشتیاق کو ہوا دی تھی وہ حال ہی میں میری نظروں سے گزرنے والی 1936ء میںلکھی جانے والی اے جے کمنکز تالیف ’’پریس اور بدلتی تہذیب‘‘ مطبوعہ جان لیں دی بودے ہیڈ نسدن تھی مذکورہ تالیف کے صفحہ 26 اور 28 پر جو تحریر درج تھی اس پڑھ کر مجھے پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی اور جرمنی کے ماہرین پروپیگنڈا کی ذہنی اختراعات کو سمجھنے میں خاصی مدد ملی تھی اور میں جاننا چاہتا تھا کہ ذرائع ابلاغ کی حقیقت سے دور سنسنی خیزیاں قوموں کی نفسیات سے کھیلنے کے لیے کس حد تک جاسکتی ہیں۔
یہ تذکرہ پہلی جنگ عظیم کا ہے۔ 17-16 اپریل 1917ء کو ٹائمز آف لندن نے اپنی جلی سرخیوں میں جو خبریں شائع کی تھیں وہ کچھ اس طرح تھیں ’’لاشوں کا استحصال ‘ میتوں کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں کٹھور اور بے رحم اعتراف اور جرمنوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ان خبروں کے ذرائع میں وہاں پر مقیم جرمن اخبار کا کارل روز نرنامی نمائندہ تھا اس سے یہ خبر منسوب کی گئی تھی کہ وہ رائمز کے شمالی جانب سے گزر رہے تھے کہ انہیں ہوا میں شدید بدبو کے مرغولوں سے واسطہ پڑا کیونکہ وہاں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا قریب ہی وہ کارخانہ یا اڈہ ہے جس کا نتظام جرمن افواج کے ہاتھوں میں ہے اور کسی دوسرے کا وہاں سے گزر نہیں ہوسکتا۔
جہاں جنگ میں کام آنے والے جرمن سپاہیوں کی لاشوں کو اس طرح ٹھکانے لگایا جاتا ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے یا اعضاء کو ضائع نہیں ہونے دیا جاتا ان کی چربی سے چکناہٹ مختلف قسم کے تیل اور گریس بنائی جاتی ہے جبکہ ان کی ہڈیوں کو پیس کر ایسا پاوڈر تیار کیا جاتا ہے جو سواروں کی جلدی پرورش کے لیے استعمال ہونے والی غذا میں استعمال کیا جاتا ہے کسی قوم کے جنگی ہیروز کی لاشوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک قومی اور فوجی مورال کی بیخ کنی کے لیے کس حد تک زہر ناک ہوسکتا ہے کہ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں اسی طرح ٹائمز آف لندن میں جرمن سپاہیوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے ان کارخانوں کے بارے میں کئی ایک مختلف کالم جن میں یہ بھی دعوی کیا گیا کہ جرمنی کے کیمسٹ جرمن سپاہیوں کی لاشوں کو پگھلا کر ان کے بنیادی اجزاء سے وہ محلول حاصل کرتے ہیں جو جرمن فوجیوں کو اسلحہ کی تیاری میں استعمال کرنا ہوتے ہیں۔ تو جہاں فرانسیسی‘ برطانوی حتی کہ کچھ امریکی عوام نے بھی ابتداء میں اس جھوٹ پر اعتبار کرلیا وہاں وہ برطانوی اور یقین نہیں آیا۔ مگر ایسی کہانیاں اس تواتر سے چھاپی گئیں کہ جرمن پروپیگنڈے کا استعارہ بن چکا ہے مگر اس کے مدمقابل جن ذہنوں کی اپج کی ادنی مثال آپ نے اوپرپڑھی ان کا ذکر عام طور پر کم کم نظر آتا ہے۔ اس تاریخی صحافتی پس منظر میں میں نے جب بچھڑنے والوں کی قبروں سے اس جرمن ضعیف بڑھیا کی عقیدت کا عملی اظہار اورقبروں کی آرائش وزیبائش کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو یہ سوچتا ہوا واپس چل پڑا کہ کیا موت دشمنوں کی نظروں میں اتنی بھیانک اور اپنوں کے لیے اتنی حسین بھی ہوسکتی ہے۔