ادویہ کے نرخوں میں اضافہ


ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے 110 سے زائد دواﺅں کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش کی ہے۔وفاقی وزارت صحت کے مطابق، پاکستان میں کینسر، نفسیاتی امراض اور اعضا کی پیوندکاری سمیت اینستھیزیا اور جان بچانے والی ادویات کی قلت ہے۔ قیمتیں نہ بڑھائی گئیں تو خدشہ ہے کہ فارما کمپنیاں یہ ادویہ بنانا اور باہر سے منگوانا بند کر دیں۔ کمپنیوں کی طرف سے دواﺅں کی قیمت 10 سے 20 فیصد اور کسی میں چالیس فیصد بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں سب سے زیادہ منافع پاکستان میں ہی کما رہی ہیں اور اپنی مرضی کرتے ہوئے ادویات کے نرخوں میں من پسند اضافہ بھی کرتی رہتی ہیں۔ پیراسیٹامول اور پیناڈول جیسی معمولی گولی پر بھی کئی گنا منافع لے رہی ہیں۔ ان گولیوں کا خام مال انھیں روپے کے بجائے چند پیسوں میں دستیاب ہوتا ہے، اس کے باوجود یہ کمپنیاں حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے ادویات کے نرخوں میں اضافہ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بہت سی کمپنیوں کو سیاست دانوں کی آشیرباد بھی حاصل ہے جو کئی طرح کی منفعتوں کے پیش نظر خاموشی سے سب کچھ ہونے دیتے ہیں جبکہ انھی کمپنیوں کو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں من مرضی کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پاکستان کے مقابلے میں ادویہ انتہائی سستے داموں دستیاب ہیں۔ جب تک ہمارے ہاں کمیشن مافیا کے خلاف سختی سے کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، ادویہ ساز کمپنیاں حکومت کو بلیک میل کرکے اپنی اجارہ داری قائم کیے رکھیں گی۔ انسانیت کے ناطے انھیں احساس ہونا چاہیے کہ جان بچانے والی ادویات کی تیاری بند کرنے کی اجازت دنیا کا کوئی قانون نہیں دیتا۔ اس وقت مارکیٹ میں بہت سی ادویات دستیاب نہیں ہیں، پیناڈول نایاب ہو چکی ہے اور جو دوائیاں دستیاب ہیں وہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں جس کے باعث غریب آدمی معمولی نزلہ زکام اور موسمی بخار کے علاج سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ حکومت کو اس مافیا کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنی چاہیے جو بھاری منافع کمانے کے باوجود بھی مطمئن نظر نہیں آتا اور حکومت کو بلیک میل کرکے آئے روز اپنی مرضی سے ادویات کے نرخ بڑھاتا رہتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن