ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور وطن ِ عزیز کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ حکومت کے ذمہ دار معاشی بدحالی کا اعتراف کرنے کے باوجود ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں کو محض افواہوں سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن اصلاحِ احوال کے حوالے سے تاحال کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ محض قرضوں اور غیر ملکی امداد پر انحصار اور یہ گمان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ ہفتہ کے روز گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں پوری اقتصادی ٹیم معیشت کی بہتری اور استحکام کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ حالات مشکل ضرور ہیں، ملکی تاریخ میں ایسے معاشی چیلنجز پہلے کبھی نہیں آئے لیکن معیشت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی استحکام آ رہا ہے اور آنے والے دنوں میں معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔ مقامِ حیرت ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ بدترین معاشی حالات کے باوجود حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور عوام الناس کو خوش کن بیانات کے ذریعے طفل تسلیاں دے رہا ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح تک آ پہنچے ہیں۔ تجارتی خسارہ اور گردشی قرضوں میں اضافہ نے اقتصادیات کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر دعوﺅں اور اعلانات کے باوجود نیچے نہیں آ رہی۔ اشیائے خور و نوش کی گرانی نے عام آدمی سے جینے کے اسباب تک چھین لیے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح غیر معمولی طور پر بڑھ چکی ہے۔ آٹے کے حصول کے لیے غریب لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے وزیر خزانہ معیشت میں ’مزید بہتری‘ آنے کی امید ظاہر کررہے ہیں۔ اگر تو غیر ملکی قرضوں اور مالی امداد کے وعدوں کو وہ معاشی بہتری قرار دے رہے ہیں تو یہ سراسر گمراہ کن بات ہے۔ ہمیں تو ابھی حاصل کردہ قرضوں پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے لیے قرضے لینے پڑ رہے ہیں اور اس طرح ہم قرضوں کے گھن چکر میں الجھتے چلے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں بہتری کے امکانات کیونکر پیدا ہو سکتے ہیں؟ جس قسم کے دل خوش کن بیانات موجودہ وزیر خزانہ جاری فرما رہے ہیں ایسے ہی بیانات ان سے پہلے آنے والے وزرائے خزانہ بھی جاری کرتے اور حالات میں بہتری کا بھاشن دیتے رہے ہیں لیکن حالات بہتری کی بجائے مسلسل ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ان کی کارکردگی میں سرِ مو بہتری نہیں آئی۔