کثرتِ دنیا سے اندیشہ (۵)

Jan 16, 2023


حضرت نوفل ایاس ہذلی رحمة اللہ بیان کرتے ہیں ، حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمارے ہم جلیس تھے اور وہ بڑے ہی اچھے ہم مجلس تھے۔ایک دن ہمیں اپنے گھر لے گئے ، ہمیں بیٹھک میں بٹھا کر گھر کے اندر گئے،غسل کرکے باہر تشریف لائے اورہمارے ساتھ بیٹھ گئے ، تھوڑی دیر بعد اند ر سے ایک پیالہ آیا جس میں روٹی اورگوشت کا سالن تھا، جب وہ پیالہ ہمارے سامنے رکھا گیا توحضرت عبدالرحمن بن عوف رو پڑے۔ہم نے ان سے پو چھا : اے ابو محمد!آپ کیوں رو رہے ہیں؟انھوںنے فرمایا:ہمارے آقا کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم اس حال میں دنیا سے تشریف لے گئے کہ آپ نے اورآپ کے اہل خانہ نے کبھی جَو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اس لیے میرے خیال میں یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ نے آپ کے بعد ہمیں جو دنیا میں زندہ رکھا ہے اوردنیا کی وسعت عطافرمائی ہے ہماری یہ حالت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت سے بہتر ہواورہمارے لیے اس میں زیادہ خیر ہو۔(ترمذی، ابونعیم)
حضرت ابراہیم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روزے سے تھے ، ان کے پاس افطار کیلئے کھانا لایا گیا تو اسے دیکھ کر فرمایا:حضرت معصب بن عمیر ؓمجھ سے بہتر تھے،انھیں شہید کردیا گیا ،انھیں ایک ایسی چادرمیں کفن دیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ اگر انکا سر ڈھانپ دیا جاتا تو اُن کے پاﺅں کھل جاتے اوراگر پاﺅں ڈھانپ دیے جاتے تو ان کاسر کھل جاتا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے بہتر تھے ، ان کو بھی شہید کردیا گیا ۔پھر اسکے بعد ہم پر دنیا کی بہت وسعت ہوگئی اورہمیں اللہ کی طرف سے دنیا کی فراوانی کردی گئی،اب ہمیں ڈر ہے کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ دنیا میںہی تو نہیںدے دیا گیا یہ کہہ کر آپ نے رونا شروع کردیا ۔(صحیح بخاری)
حضرت طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں ،حضور اکرم ﷺ کے صحابی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ شدید علیل ہوگئے اور انکی وصال کے آثار نمایاں ہوگئے ، چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی عیادت کیلئے تشریف لائے ، انھوںنے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے کہا :اے ابو عبداللہ ! آپ کو خوشخبری ہو کہ آپ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ جائینگے ۔یہ سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ رو پڑے اور ارشادفرمایا: مجھے موت سے کوئی گھبراہٹ نہیں ہے لیکن تم نے میرے بھائیوں کا نام لےکر مجھے ان کی یاد تازہ کرادی ہے جو اپنے اعمال صالحہ کا سارا اجر و ثواب ساتھ لے کر آگے چلے گئے اورمجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ انکے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو مال ودولت ہمیں دنیا میں عطاکردی ہے کہیں وہ ہمارے ان اعمال کا بدلہ نہ ہوجن کا تم تذکرہ کررہے ہو۔(ابونعیم ، ابن سعد )

مزیدخبریں