انسانوں کے بہت سارے کارنامے ایسے جنہیں موت بھی فنا نہیں کرسکتی : زہرا نگاہ 

کراچی(این این آئی )برصغیر کے نامور ادیب جاوید صدیقی نے کہا کہ میں تو صحافی تھا لیکن اچانک فلمیں لکھنے لگا۔ میری شادی کامریڈوں کے چندہ سے ہوئی لیکن جو ہوا اچھا ہوا کہ بیگم بہت اچھی مل گئی بچے سارے باصلاحیت ہیں لیکن سمیر میری ایکسٹینشن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے لیے منعقدہ تقریب سے کیا۔ اس موقع پر زہرا نگاہ، ضیاء محی الدین، فاطمہ حسن اور صدرآرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے بھی گفتگو کی۔ جاوید صدیقی نے کہا کہ ہماری طرف کہا جاتا ہے کہ بچے فرشتے تقسیم کر دیتے۔ اس لیے میں نے لکھا کہ فرشتوں کے دل میں کیا آئی مجھے اس گھرانے میں پیدا کیا جیسے محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر میرے دادا اور کئی بڑے لوگ جن کی صحبت میں، میں نے تربیت حاصل کی اور آج آپ کے سامنے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ میری شناخت بن گئی ہے لیکن میں اپنی شناخت کچھ اور بنانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ فلم کی کہانی لکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا، آج سوچتا ہوں کہ زندگی ہماری مرضی پر نہیں بلکہ کسی اور قوت کی مرضی سے چلتی ہے۔ میں صحافت میں تھا۔ بھارت میں ایمرجنسی کے دوران ضرورت پڑی کہ ایک فلم کی کہانی لکھنی ہے وہ لکھے گا جو فلمی لکھاری ہو، تو میرے نام کی تجویز ہوئی لیکن تین منٹ کی ملاقات میں میرا انتخاب ہو گیا۔ اس وقت میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ میں نے ڈائیلاگ لکھے اور آپ کو پسند آئے۔ جاوید صدیقی نے کہا کہ میرے نثر غیر شعوری ہیں، بہترین نثر سے نظم نکلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جو کچھ بھی لکھا وہ میں نے اپنے لیے لکھا۔ میرے خاکے میری اپنی کہانی ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں لکھنا چاہیے لیکن میں سمجھتا ہو کہ لکھنے والے کو چھوٹا نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 1960ء میں جب میں دلی پہنچا تو ترقی پسند تحریک اتنی متحرک نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ لوگ بہت بڑے تھے جو کسی میں امتیاز نہیں کرتے تھے۔ جب میری شادی ہوئی تو سلطانہ آپا کے اکاؤنٹ میں 7 سو روپے تھے جس میں سے 6سو روپے مجھے دے دیئے۔ سارے کامریڈ نے مدد کی اس طرح چندے میں شادی ہو گئی لیکن جو ہوا اچھا ہوا، بیوی بہت اچھی ملی۔ اپنے بچوں کے بارے میں جاوید صدیقی نے کہاکہ سب باصلاحیت ہیں تاہم سمیر میری ایکسٹینشن ہیں۔ فریدہ جاوید نے کہا کہ جاوید لکھاری ہی نہیں بہت اچھا انسان بھی ہیں، میں نے ان کو پسند کیا اور شادی ہوئی جس پر میرے بھائی دو سال تک ناراض رہے۔ زہرا نگاہ نے کہا کہ جب میں نے جاوید صدیقی کی تحریر پڑھی تو یقین تھا کہ ایک دن ان سے ملاقات ضرور ہو گی۔ جاوید نے بہت لکھا لیکن ’’دل والے دلہنیالے جائیں گے‘‘ لوگ نہیں بھولتے۔ انہوں نے کہا کہ زبان تو ان کو ورثہ میں ملی محمد علی جوہر سے تعلق تھا۔ انسانوں کے بہت سارے کارنامے ہیں جن کو موت بھی فنا نہیں کر سکتی ان میں جاوید بھی شامل ہیں۔ جاوید کا کام تنہا کام ہے ٹیم ورک نہیں۔ انہوں نے ’’شطرنج‘‘ کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے ڈائیلاگ لکھنے میں آپ کو کتنی تکلیف اٹھانی پڑی، زہرا نگاہ نے کہاکہ جاوید صدیقی نے نثر کو نظم میں ڈھال دیا۔ بعض جملوں میں غزل کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے لیے دعا بھی اور مبارک بھی، فاطمہ حسن نے جاوید صدیقی کی نثر میں سے مخصوص الفاظ کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کمال شعوری ہے یا غیر شعوری۔ضیاء محی الدین نے جاوید صدیقی کے خاکوں کی مخصوص انداز میں پڑھنت کی۔ اس سے قبل گفتگو کرتے ہوئے ضیاء محی الدین نے کہا کہ ایسی نثر ہمیں پہلے پڑھنے کو نہیں ملی۔ان کی کتاب لنگر خانہ سے ایک باب پڑھ کر سناتا ہوں۔صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کہا کہ میں چاہتا تھا کہ ہمارے عہد کا یہ بڑا آدمی آرٹس کونسل تشریف لائے۔ آج ہمارے اسٹیج پر برصغیر کے بڑے لوگ بیٹھے ہیں جو منقسم ہندوستان کے رابطہ کی زنجیر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جاوید صدیقی کے ساتھ محبت کے جو رشتے ہیں ان کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ انہوں نے امید کی کہ دونوں ممالک کے حالات اچھے ہوں گے اور دونوں ممالک کے ادیب ان ملکوں کے عوام کے ساتھ مل سکیں گے۔ اس سے قبل جاوید صدیقی نے بیگم فریدہ اور صاحبزادے سمیر، بھتیجی عنایہ ، ضیاء محی الدین، زہرا نگاہ ،فاطمہ حسن اور محمد احمد شاہ کے ہمراہ سالگرہ کا کیک کاٹا۔ کچھا کھچ بھرے ہال میں سامعین نے کھڑے ہوکر تالیوں بجا ئیںاور ان کو سالگرہ کی مبارکباد دی۔

ای پیپر دی نیشن