جناب وزیراعظم۔معاشی ایمرجنسی کب نافذ ہوگی؟

Jan 16, 2023

اسلم لودھی


تحریر : محمد اسلم لودھی
 اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایٹمی پاکستان کا خزانہ بالکل خالی ہوچکاہے ۔جس میں بمشکل ساڑھے ارب ڈالر موجود ہیں ان میں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کا حصہ شامل ہے۔ایسے ہی حالات میں ایمرجنسی لگاکر مالی اور معاشی بے ضاطگیوں اوربنیادی معاشی مسائل کا خاتمہ کیا جاتا ہے ۔ ایک دوست نے مجھے ایک خط دکھایا جس میں مالی ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات شامل تھے ۔ لیکن اگلے ہی دن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تردید کرکے بات ختم کردی ۔میں وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ معاشی ایمرجنسی لگانے کے لیے اور کیسے حالات کا انتظار کیا جارہا ہے۔کیا اب بھی کوئی کسر باقی رہ گئی ہے ۔ ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر اعلی عدلیہ کے ججز کی تنخواہوں پنشن اور مراعات میں کٹوتی کی جائے۔ یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دائر کی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے حکومت بھاری تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات میں کٹوتی کرنے کی بجائے سارا بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے، اعلیٰ عدلیہ اور دیگر اداروں میں بھاری پنشن و دیگر الاو¿نسز پر نظرثانی کی ہدایت کی جائے۔ ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے اشیاءخورونوش کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں،خراب معاشی حالات کی وجہ سے عوام خودکشیوں پر مجبورہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایڈ ووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے اپنی درخواست میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے ۔یاد رہے کہ مرکز اور صوبائی دفاتر میں چھوٹے بڑے رینک کے افسروں کی فوج ہر ماہ اربوں روپے بطور تنخواہ اور مراعات وصول کرتی ہے ،گریڈ سترہ سے گریڈ 22تک کے تمام سرکاری افسروں کو بھاری تنخواہوں کے علاوہ بجلی ، گیس ، ٹیلی فون ، موبائل ، دو دو تین گاڑیاں مع ڈرائیور ، گھریلو چوکیدار اور اندورن ملک اور بیرون ملک مفت سفرکرنے کی سہولت ، ٹی اے ڈی سمیت فراہم کی جاتی ہے ۔ریگولر سرکاری افسروں کے علاوہ ہر حکومت اپنے من پسند لوگوں کو بغیر تجربے اور اہلیت بھاری تنخواہوں پر بھرتی کرتی ہے ۔جہاں ایک افسر سے کام چلایا جا سکتا ہے وہاں پندرہ بیس افسربیٹھا دیئے گئے ہیں ۔ اس وقت پچاس کے لگ بھگ اتحادی حکومت کے وزیر ، مشیر، وزیر مملکت ، معاون ، معاون خصوصی قومی خزانے پر بوجھ کی شکل میں موجود ہیں ۔ایک وزیر/ مشیر قومی خزانے سے ایک کروڑ روپے کی ماہانہ تنخواہ اور دیگر سہولتیں وصول کرتا ہے ۔جبکہ ان تمام وزراءکو بلٹ پروف اور قیمتی گاڑیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح پنجاب ، سندھ ، خیبر پختون خوا ،بلوچستان اور گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کو بالترتیب اڑھائی لاکھ روپے فی ممبر، ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے فی ممبر، ڈیڑھ لاکھ روپے فی ممبر، بلوچستان اسمبلی کے ممبران کو ایک لاکھ پچیس ہزار روپے فی ممبر ادا کیے جاتے ہیں ۔گلگت بلتستان میں شاید بلوچستان کا ریٹ ہی رائج ہوگا ۔اس طرح قومی اسمبلی کے ممبران کو تین لاکھ روپے فی ممبر اور سینٹ کے اراکین کو چارلاکھ روپے فی ممبر قومی خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں ۔اس طر ح صرف پارلیمان کے اراکین کی تنخواہوں پر سالانہ 35ارب پانچ سو سینتالیس ملین روپے خرچ ہوتے ہیں۔ہاو¿س رینٹ ، گاڑی ، گھر کے بل ، ہوائی ٹکٹ ، بیرون ملک دورے اور رہائش کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔اس میں اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر ، وزراء، وزیر اعلی ، گورنر ، وزیر اعظم ، صدر کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کرسالانہ خرچ 85 ارب کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ان میں سے اکثر لوگ پورا ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ کیاان کا معلومات جاننا عوام کا حق نہیں۔؟کیونکہ یہ سارا پیسہ عوام ہی کے ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے۔۔۔ حیرت کی بات تویہ ہے سینٹ اور قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کی صورت میں سینٹ اور قومی اسمبلی کے تمام ممبران کو لاکھوں روپے فی ممبر پنشن بھی ملتی ہے اور دیگر مراعات بھی ۔اس میں صدر ، وزرائے اعظم ، چیئر مین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو تاحیات بھاری پنشن اورمراعات حاصل رہتی ہیں۔ عدلیہ اور فوج کے افسران بھی تا حیات مراعات لینے والوں میں شامل ہیں ۔اگر ملک کا خزانہ خالی ہے توعوام پر سارا بوجھ ڈالنے کی بجائے گریڈ سترہ سے گریڈ 22کے تمام افسروں کی تنخواہوں اور مراعات کو نصف کرکے لاکھوں روپے پنشن لینے والوں کو بھی زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار لینے کا پابند کیا جائے اور تاحیات تمام مراعات یکسر ختم کردی جائیں۔یہ سب کچھ مالی ایمرجنسی لگا کر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

مزیدخبریں