عتےق انور راجہ
اسلامی نظام کا مطب ملاو¿ں کی حکومت نہےں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی نظام ترتےب جائے۔حکمران ،قاضی فےصلہ کرتے وقت احکام الہی کو سامنے رکھےں۔آج کل پاکستان کے حالات اےسے ہےں کہ کوئی بندہ بھی خوش نہےں ہے ۔چاہے کوئی کارخانے دار ہے ،فےکٹرےوں ،پلازوں کا مالک ہے ،اعلی سرکاری عہدہ رکھتا ہے ےا کوئی اور کاروبار کر رہا ہے ۔گزرے دو تےن عشروں مےں ہر حکومت عوام کی قسمت بدلنے کے وعدے کر کے اقتدار تک پہنچی۔اُس نے اقتدار مےں رہتے ہوئے عوام کی فلاح کے نام پر اپنے اہل و عےال اور قرےبی عزےزوں،رشتہ داروں اور دوستوں کے نام پر جائےدادےں بنانے کا عمل شروع کےا ۔جب دولت کی ہوس مےں اندھوں نے ملکی دولت اغےار کے بےنکوں مےں رکھنے کا عمل شروع کےا تو اس وقت ملکی معےشت حقےقی معنوں مےں زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی۔اگر ےہ مفاد پرست چوری،ناجائز زرائع سے کماےا جانے والا پےسہ پاکستانی بےنکوں مےں ہی رکھتے ،پاکستان مےں ہی بڑے بڑے صنعتی منصوبے شروع کرتے تو آج پاکستان کو ڈےفالٹ سے بچنے کے لےے کبھی عربوں اور کبھی چےن و امرےکہ کے سامنے گھٹنے نہ ٹےکنے پڑ رہے ہوتے۔ستم ظرےفی تو ےہ ہے کہ بڑے عہدوں سے رےٹائر ہونے والے سبھی لوگ دوران نوکری اپنی اولاد اور د ولت دوسرے ملکوں میں شفٹ کر چکے ہوتے ہےں ۔ ان کی حب الوطنی نوکری ،مراعات اور پھر بعد مےں پرکشش پےنشن تک ہی محدود ہو کے رہ گئی ہے۔نظام انصاف گرواٹ کا شکار ہوچکا ہے۔لوگ ہر جماعت سے بدظن ہےں ۔ ہمارا ملکی نظام بہتری مانگ رہا ہے ۔جب تک امےر غرےب اعلی ادنی کے لےے اےک سا قانون نہےں بنتا تب تک ملکی نظام کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہے گا۔انصاف،عدل اور بنےادی سہولتےں فراہم کےے بغےر کےسے کوئی فلاحی رےاست کا خواب شرمندہ تعبےر ہوسکتا ہے ۔قرےب ساری دنیا میں قدیم زمانے سے بادشاہی نظام رائج تھا، جس میں ایک ہی شخص ملک و قوم کے سیاہ و سپید کا مالک و مختار ہوتا تھا، وہ اپنی صوابدید پر کوئی بھی فیصلہ لینے کا مجاز تھا۔ بادشاہوں کا مزاج اس قدر خوفناک ہوتا تھا کہ ان کے وزیر اور مشےر اپنی جان کی قیمت پرمشورہ دیتے تھے، اگر مشورہ درست ہوا تو انعام و اکرام سے نوازے جاتے تھے اور اگر بدقسمتی سے مشورہ درست ثابت نہ ہوتا ےا بادشاہ سلامت کو پسند نہ آتا تو مشورہ دےنے والے کا سر قلم کردےا جاتا۔ بادشاہ کے اس فیصلے کو بھی کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا کےونکہ درباری مذہبی پےشواوں نے رعایا کو ےہ باور کروادےا ہوا تھا کہ بادشاہ کی زبان سے خدا خود کلام کرتا ہے۔ جمہورےت کا لالی پاپ بےچنے والے مغرب مےں آج سے تین چارسو سال پہلے تک یہی نظام رائج تھا۔انقلاب ِفرانس نے مغرب مےں انسانوں کے حق کے لےے کھڑا ہونے کا اےک نےا فلسفہ پےش کےا جو آگے چل کے جمہوری نظام حکومت کی شکل مےں سامنے آےا۔ جمہوری طرز حکومتوں کے قائم ہونے مےں چونکہ عوام کی رائے شامل کی گئی تھی اس لےے دےکھتے ہی دےکھتے مغرب کے بیشتر ممالک میں یہ طریقہ رائج ہو گیا۔مگر وہاں کے حالات بھی بالکل وےسے اچھے نہےں ہےں جےسے ہمےں دکھائے جاتے ہےں ۔علامہ اقبالؒ مغربی جمہوری نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرز حکومت میں بھی شاہی نظام کی طرح کے پرویزی حیلے بازیاں ہیں، نام گرچہ بدل گیا ہے مگر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے بیشتر حاکموں کا مزاج وہاں بھی ڈکٹیٹروں والا ہی ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری ریاستیں اگرچہ خود کو سیکولر ازم کی علمبردار قراردیتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا کوئی نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور ان کے حکمراں اپنے اپنے مذاہب اور اقوام کے لیے متعصب بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب اور اپنی قوم کے کاز و مفادات کو سامنے رکھ کر ہی بےانےہ بناتے ہےں۔
اب کےا کےا جائے۔ہمارے عوام علما ¿کوےا دےنی راہنماوں کو سر آنکھوں پر تو بٹھاتے ہیں لےکن جب ووٹ کی باری آتی ہے تو عوام ووٹ براردری،دھڑے ، لسانےت اوراثر و رسوخ والے لوگوں کو دے دےتی ہے ۔مذہب کے نام پر سےاست کرنے والو ںکو صرف اتنی نشستےں ہی دی جاتی ہےں کہ وہ ہر حکومت کے بننے اور ٹوٹنے مےں اہم کردار اداکررہی ہےں۔ اےسے مےںکرنے والا کام تو ےہ ہے کہ باکردار اور دےن کی خدمت صحیح معنو ں مےں کرنے کا جذبہ رکھنے والے زمانہ شناس لوگ سامنے آئےں جو نہ صرف مذہب کو اچھے سے جانتے ہوں،با عمل ہوں،با کردار ہوں اور باشعور بھی ہوں۔اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے عوام کو اگر مشکل وقت مےں رےاست بچانے کا ہنر سمجھ نہےں آرہا ہے تو پہلے خلےفہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے طرز حکومت سے سبق لےا جاسکتا ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ تعلیماتِ نبویﷺکے مجسّم پیکر تھے آپ نے حضور نبی رحمت کے بنائے ہوئے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی البتہ وقت اور حالات کے پیش نظر جو حالات سامنے آئے ان کے مطابق دےگر اصحاب سے مشورہ کے بعد بہتری کے لےے اقدامات کےے۔ےعنی آپؓنے ہر علاقے کے لےے علیحدہ علیحدہ قاضی اورسپہ سالار تعےنات کےے تاکہ بروقت انصاف کا حصول ممکن ہو۔ کسی کو بھی کسی کا حق مارنے کی اجازت نہیں تھی چاہے وہ جتنا بڑا بھی عہدیدار ہو، رشوت کسی بھی معاملہ میں نہیں لی جاتی تھی کسی کو شکایت کرنے کے لئے کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی تھی وہ خود جا کر خلیفہ ¿ وقت سے سوال کر سکتا تھا ۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو آپؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے ہمراہ بیت المال کی عمارت کا دورہ کیا تو وہاں صرف ایک درہم برآمد ہوا پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں جو بھی رقم آتی تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کو عوام کی فلاح و بہبودکے لیے خرچ کر دیتے تھے۔ لیکن ہمارے حکمران عوام کی فلاح کے نام پر ملک کے وسائل لوٹ رہے ہےں ۔باری باری سب مال بنا رہے ہےں ۔