پروفیسر محمد مظہر عالم
اس میں کوئی شک نہیں کہ ارضِ پاک ان دنوں اِک عجیب سیاسی، معاشرتی، معاشی، فکری و ذہنی اور آئینی بحران کا شکار ہے اور جس کے منفی اثرات دِن بدن ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ چند سال پہلے روزنامہ نوائے وقت میں ایک حقیقت پر مبنی خاکہ شائع کیا گیا، ایک بہت بڑا پرندہ جس کے بال و پَر نہیں ہیں اور ایک ڈھانچہ کھڑا ہے۔ جس کے چاروں اطراف گِدھوں کا جھنڈ بیٹھا ہے جن کے ناخنوں، چونچ حتیٰ کہ پنجوں پر گوشت کے لوتھڑے ہیں۔ خاکہ کے نیچے صرف اتنا تحریر تھا، ”عنوان خود منتخب کریں۔“ آج تک لگتا ہے کہ اس کا عوام تو شاید عنوان منتخب نہ کر سکیں۔ البتہ اس وطن کے ڈھانچہ کے گِرد منڈلانے والے گدھوں کی تعداد بہت ہی بڑھ چکی ہے۔ غور طلب حقائق یہ ہیں کہ وطنِ پاک کے وجود سے ہماری آنے والی نسلوں کی بقاءکا انحصار ہے اپنے مستقبل سے جس حد تک فکر مند ہیں اس کے حقیقی مداوا کے لیے مقتدر طبقہ مکمل طور پر نابلد ہے۔ بلکہ دانستہ طور پر تمام بااختیار اپنے اور اپنی نسلوں کی معاشی، معاشرتی ، سیاسی حیثیت کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں اور اس کی خاطر ارضِ وطن کو ناپاک کر رہے ہیں۔ پاکستان کا قیام ہمارے لیے سیاسی معجزہ سے کم نہ تھا۔اس نظام کے خلاف جہدِ مسلسل اور جانوں کے نذرانے پیش کر کے قائد اعظم اور اُن کے مخلص ساتھیوں نے انگریزوں کی غلامی اور ہندوﺅں کی مستقبل کی گرفت سے بچایا، لیکن بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے پہلے عشرہ کے دوران ہی ہماری اولین قیادت سے محرومی ، ہمارے لیے مسائل و مصائب کا باعث بنی۔
بتدریج ہم پر ایسے لوگ جن کا تعلق سیاست و حکومت سے قطعاً نہیں تھا مسلط ہونا شروع ہوئے۔ ایک سب سے بڑی خرابی وہ نظامِ حکومت تھا جس کے ساتھ عوام کا دور دور تک کاواسطہ نہیں تھا۔ قائد اعظم فہم و فراست کے مالک تھے۔ انہوں نے 1910-11ءءمیں مجلسِ قانون ساز میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ بیورو کریسی کے اختیارات نچلی سطح پر منتخب نمائندوں کو منتقل کئے جائیں اور ظاہر ہے کہ انگریز اپنے اختیارات کبھی بھی منتقل کرنے پر تیار نہ تھے اور مقامی اداروں کو ایک حد سے زیادہ اختیارات تفویض کرنے کا مقصد عوام کو سیاسی و آئینی شعور دینا، ان کے قائم کردہ نو آبادیاتی نظام کے لیے ستمِ قاتل ثابت ہوتا۔ اس دور میں جو بااختیار تھے، ان کی ذمہ داری جوابدہ کی نہ تھی، اور جو ذمہ دار تھے انہیں مکمل اختیارات دئیے گئے۔ یہ سلسلہ آج بھی اس سے بُری حالت میں قائم و دائم ہے۔ آج کے معروضی حالات کا جائزہ لیں تو ہمارے جتنے بھی منتخب ادارے ہیں ان کا براہِ راست عوامی بھلائی سے کوئی سروکار نہیں۔ موجودہ پارلیمانی نظام ہمارے وسائل سے بڑھ کر ہے ۔جس سے ہمارے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ اگر بنظرِ غائر جائزہ لیں اوراپنے سیاستدانوں کے کردار و گفتار کو قائد اعظم کے ارشادات و اعمال کی روشنی میں پرکھیں تو سب مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ قائداعظم نے اپنی زندگی میں ہمارے لیے جو قابلِ عمل نظام دیا ہاور جس کے وہ خواہش مند تھے، وہ صدارتی نظامِ حکومت تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ پارلیمانی نظام سے ہماری جاں خلاصی کرا سکتے۔
آج وطنِ پاک کے کم و بیش سبھی سیاستدان بشمول عمران خان، جنہیں اپنے علاوہ کوئی اہل ہی نظر نہیں آتا، نئے سیاسی سسٹم کے بارے میں غور و فکر کریں۔ سیاسی آئینی جنگ کے لیے پارلیمان کا فورم موجود ہے لیکن جب پارلیمانی ممبرز ہی اسے بے توقیر کر رہے ہیں، تو کیا ہمیں ایسے پارلیمانی سسٹم کی ضرورت ہے؟ بالکل نہیں۔ ملک میں افراتفری کا یہ عالم ہے کہ سڑک سے لیکر مقتدر اداروں تک اور ایک عام آدمی سے لیکر سربراہِ مملکت تک کوئی ضابطہ و قانون ماننے پر تیار ہی نہیں تو پھر ایسے بدنظم نظام سے جان چھڑانے کا اہتمام کیوں نہ کیا جائے۔
علامہ اقبال نے جو فرمایا تھا، اہلِ وطن سُن لیں
جب تک تلپٹ ہو نہیں جاتا یہ خونخوار نظام
دانش، کلچر، دین، تمدن اِک سودائےِ خام
جب تک تلپٹ ہو نہیں جاتا یہ خونخوار نظام
Jan 16, 2023