قاضی عبد الر¶ف معینی
ادارہ معین الاسلام بیربل شریف ضلع سرگودھا کے ناظم پروفیسر محبوب حسین کی رہنمائی اور سرپرستی میں ایسی علمی تربیتی اور روحانی سرگرمیوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے جو نہ صرف ادارے میں تحصیل علم کرنے والے سینکڑوں طلباءکے لئے تربیت اور علمی و روحانی ترقی کا باعث ہوتی ہیں بلکہ ان میں علاقے کے عوام کے لیے بھی علم و آگہی اور روحانی سیرابی کا سامان ہوتا ہے۔ 14 دسمبر 2022 ءکو ادارہ معین الاسلام میں منعقد کیا جانے والا تصوف سیمینار بھی اسی طرح کی ایک سرگرمی تھی۔ موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عقیل احمد، ڈاکٹر صاحبزادہ مستفیض احمد، راقم السطور اور ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کو مدعو کیا گیا۔ انہوں نے موضوع کی مختلف جہات پر گفتگو کی۔ پروفیسر ڈاکٹر عقیل احمد نے تصوف کے تاریخی پس منظر اور اکابرین امت جن میں تابعین، محدثین، فقہاءاور اکابر اہل علم شامل تھے کی کتابوں، حوالوں اور ارشادات کے ساتھ تصوف کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر صاحبزادہ مستفیض احمد نے خانقاہ کے معاشرتی اور سماجی کردار کو موضوع بنایا اور بتایا کہ دور حاضر میں کس طرح خانقاہ کا وہ شاندارکردار بحال کیا جا سکتا ہے جو ماضی میں معاشرے کو اعلی اخلاقی اقدار اور اسلام کی زریں تعلیمات کا گہوارہ بنائے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کا موضوع علامہ اقبال کا تصور تصوف اور اکابر صوفیاءکا منہج تربیت تھا۔ انہوں نے علامہ اقبال کی نظم و نثر سے اس نکتے کی وضاحت کی کہ تصوف کیا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کے مسائل اور معاشرے میں اس کی عدم موثریت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے علامہ اقبال کی مشہور نظم فردوس میں ایک مکالمہ پر گفتگو کی جس کا حاصل یہ ہے کہ
خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم
تصوف کا تعارف کرواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تصوف کی مختصر ترین تعریف یہ ہے کہ یہ ذات حق کے تصور کو عقیدے سے نکال کر زندگی میں عملًا محسوس کرنے کا نام ہے۔ اکابر صوفیاءکی ساری تربیت اور نظام مجاہدہ اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں سے پہلے خطبے علم اور روحانی مشاہدہ میں لکھا کہ اگرچہ ماحول کی معاند قوتیں انسان کو اس کے مقصد حیات سے ہٹانے کے لیے بر سر پیکار رہتی ہیں لیکن انسان کو اللہ نے وہ قوت عطاءکر رکھی ہے کہ وہ ان قوتوں کو اپنی منشا کے مطابق ڈھال کر جس راہ پہ چاہے چلا سکتا ہے۔
اس کے باطن میں وہ قوت موجود ہے جس سے وہ ایسا جہان تخلیق کر سکتا ہے جس میں مسرت، اطمینان اور جہان نو کی تخلیق کی استعداد پائی جاتی ہے۔ یعنی تصوف باطن کی بیداری کا ایک ایسا عمل ہے جہاں اسے مقصد حیات کی طرف بڑھنے کی تحریک بھی ملتی ہے اور تقویت و رہنمائی بھی۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی فتح ربانی میں فرماتے ہیں کہ اے سالک تجھے تیرا نفس جو بھی حکم دے اسے مت قبول کر تا آنکہ اس کے لئے تیرے پاس اللہ کا امر نہ آ جائے۔ اور جب تم تزکیہ کے عمل سے گزر جا¶ گے تو تمہارے قلب کو الہام یا منام کے طریق سے رہنمائی عطا کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ تصوف کا نظام تربیت ہمیں وہ یقین اور استعداد دے دیتا ہے جس سے ہمیں معمول کی زندگی میں ذات حق کی قربت کا تجربہ ہونے لگتا ہے علامہ کے مطابق روحانی واردات کی اس حالت میں ہم ذات حق کا اپنی شخصیت کے محدود دائرے سے ماوراءعلم حاصل کر لیتے ہیں۔
انہوں نے علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں اس نکتے کی وضاحت کی کہ تصوف تعمیر کردار کا ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں انسان وہ کرداری پختگی اور قوت حاصل کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں انتہائی مخالفانہ اور معاند ماحول بھی اسے راہ حق سے متزلزل نہیں کر سکتا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ یہ حی اور قیوم ذات کی قربت ہے جس کی وجہ سے بندہ ¿ مومن کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ٹھہر سکتی اور وہ برستی ہوئی گولیاں کی بارش میں بھی انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہوتا ہے۔تصوف کی یہ منزل جس بنیاد پر استوار ہے وہ اخلاقیات ہے۔ تصوف کا کوئی بھی مکتبہ فکر اور کوئی بھی استاد انسان کی اخلاقی اساس کو نظرانداز نہیں کرتا۔ جب تک اخلاقیات تصوف کے دیے ہوئے معیار پر پورا نہ اترے۔ تصوف کے اعمال، مجاہدات اور نظام تربیت کبھی بھی نتائج پیدا نہیں کرتے۔ آج ہمارا معاشرہ جس اخلاقی بحران کا شکار ہے اس کا تدارک اسی صورت ہو سکتا ہے کہ تصوف کے منہج تربیت کو اس کے تقاضوں کے ساتھ اختیار کیا جائے۔ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے مشائخ بیربل شریف میں سے حضرت محمد عمر بیربلوی کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنی کتاب انقلاب الحقیقت میں تصوف کے عملی دستور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انقلاب الحقیقت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ محض اتباع شریعت اور موثر پابندی شریعت دو مختلف باتیں ہیں۔ آج تصوف پر اعتراضات اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ اہل طریقت نے بغیر موثر اتباع شریعت کے دعوائے ولایت کیا۔ اگر آج خواص قرون سابقہ کی طرح محتاط رویہ اختیار کرتے تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ اس دور آزادی، دہریت اور فلسفیت میں ایک حرف بھی فقر کے خلاف کہا جاتا۔ کیوں کہ یہ دور سادہ فطرت نہیں رکھتا۔ بلکہ فطرتیں نہایت تحقیق پسند ہو گئی ہیں۔ اگرچہ عمل میں انحطاط کمال ہے لیکن عقلی قوتوں میں کمی نہیں اور نہ ہی علمی سامان میں کمی ہے۔انہوں نے کہا کہ انقلاب الحقیقت کے مطابق اتباع شریعت بے شک نشان ولایت ہے لیکن اتباع کامل کے تقاضے اور لوازمات بالکل مختلف ہیں۔ کامل اتباع سوائے جذبات کاملہ کے نصیب نہیں ہو سکتی۔ اور جذبات کاملہ کو کسبیت سے تعلق نہیں بلکہ یہ وہب اور عنایت الہی ہے۔ اکابر صوفیاءکی زندگیاں گواہ ہیں کہ صوفیاءکی زندگی تاثیر اور تاثر کی مظہر ہوتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں نصرت الہی نصیب ہوتی ہے۔ تصوف یہ سکھاتا ہے کہ افعال جذبات کاملہ کے بغیر کچھ اثر نہیں رکھتے اور قوی جذبات ہی فقر کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر کوئی صوفی بغیر جذبات قوی و کامل کے اصلاح کے عمل پر کاربند ہوتا ہے تو وہ شیریں کلامی اور نکات علمی تو بیان کر سکتا ہے لیکن اس سے معاشرے میں حقیقی تبدیلی نہیں نظر آئے گی۔تصوف سیمینار میں اہل علم کی گفتگو آتش رفتہ کا سراغ لگانے اور کھوئے ہو¶ں کی جستجو کرنے کا مصداق نظر آ رہی تھی۔ شرکاءحال میں رہتے ہوئے ماضی کے جھروکوں سے اپنی زریں روایات کو دیکھ رہے تھے۔ اہل علم کے لئے یہ مسئلہ تحقیق کا متقاضی ہے کہ علامہ اقبال کی روشن اور توانا فکر اور اکابر صوفیاءکے عملی منہج کے موجود ہوتے ہوئے ہم اپنے تعلیمی و تربیتی اداروں میں کوئی ایسی اخلاقی اور روحانی تجربہ گاہ کیوں نہیں بنا سکے جہاں ہم تصوف کے اصولوں کی تاثیری اور تاثری حیثیت کو عملا نمایاں کر سکتے اور مغربی دنیا میں انفسی علوم میں ہونے والی تحقیقات کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتے۔یہی علامہ اقبال کی شان قلندری کا راز وہ کیمیا گری ہے جو ہمارے روز سیاہ کو روشن صبح میں بدل سکتی ہے
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے، اور میری کیمیا کیا ہے