قلمی چغلیاں۔ شفقت رانا
کلاس روم میں پروفیسر نے طلباءسے کہا کہ آج میں سب سے ذہین طالب علم کو انعام دوں گا جس کے لئے ذہانت کا امتحان ہو گا۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی چھا گئی اور تمام طلباء ہمہ تن گوش ہو گئے، پروفیسر نے میز کی دراز سے د±نیا کا نقشہ نکالا اور ا±سے پھاڑ کر کچھ حصوں میں تقسیم کر دیا، طلبا ء کی طرف متوجہ ہو کر پروفیسر نے اعلان کیا کہ جو طالب علم اِس نقشے کو صحیح سمت سے جوڑ دے گا وہی انعام کا حق دار ہوگا۔ بہت سے طلباء نے کوشش کی لیکن ناکام رہے اِسی اثناء میں ایک طالب علم ا±ٹھا اور ا±س نے چند منٹوں میں نقشہ بالکل اصلی حالت میں جوڑ دیا دوسرے طلباءسمیت پروفیسر بھی حیران تھا پروفیسر نے ا±س طالب علم سے پوچھا کہ تم نے اتنی جلدی نقشے کے ٹکڑوں کو کیسے جوڑلیا؟ طالب علم نے جواب دیا کہ جناب عالیٰ نقشے کی پچھلی جانب ایک آدمی کی تصویر تھی سب نقشہ جوڑنے کی کوشش کرتے رہے میں نے ا±س آدمی کے چہرے کو جوڑا تو دوسری جانب سے نقشہ خودبخود اصلی حالت میں آگیا۔ طالب علم نے مزید کہا کہ اگر ہم آدمیوں کو جوڑیں تو ساری د±نیا کا نقشہ اصلی حالت میں جوڑا جا سکتا ہے۔ ہم نے مسلک،مذاہب، قومیت، ناموں، رنگ و نسل اور ایک دوسرے کی حیثیت کو مد نظر رکھ کر سارے انسانوں کو تقسیم کیا ہوا ہے اگر انسان کو آپس میں جوڑا جائے تو ساری د±نیا میں امن و سلامتی کی فضاءقائم ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں موجودہ دور انتہائی کسمپرسی سے نبرد آزما ہے، سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے عوام الناس کو چوہدراہٹ، ذات پات، تھانہ کلچر، برادری پرستی، علاقائی تعلق، امیری غریبی، مالک نوکر اور ایسے فرضی عنوانات سے آپس میں اتنا زیادہ تقسیم کر دیا ہے کہ اب ایک ہی گھر میں سگے بھائی مختلف جماعتوں کے پیرو کار بنے ہوئے ہیں۔پاکستانی قوم یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی کہ ورلڈ بینک، اسلامی بینک، دوسرے طاقتور ممالک اور اقوام متحدہ سے مانگ کر لی جانے والی امداد کہاں خرچ ہوتی ہے اور ا±س کا حساب کتاب کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ عوام جس طرح مارکیٹوں میں اپنے مدمقابل سیاسی کارکنان اور قائدین کی ”بلیو فلمیں“ تلاش کرتے پھر رہے ہیں وہی تلاش اگر اِس معاملے کیجانب مبذول کر لی جائے کہ آج تک جو ملکی مفاد کا نام لے کر قرضے لئے گئے وہ کہاں ہیں؟ ا±ن کا حساب کہاں ہے؟تو شائد ملک میں انقلاب آجائے، پاکستان میں آنے والی حکومت یہ کہہ کر اقتدار میں رہتی ہے کہ جانے والی یا سابقہ حکومت نے ملک کو قرض جیسے بھنور میں پھنسا دیا اب ہم سابقہ حکومتوں کا قرض ا±تارنے کے لئے مزید قرض لے رہے ہیں۔ابھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے کہ سابقہ الزامات سے بھری حکومت دوبارہ اقتدار میں آ جاتی ہے اور آتے ہی وہ نئے قرضے لینے چل پڑتی ہے یہ کہہ کر کہ سابقہ حکومت ملک کا بیڑا غرق کر گئی۔ 75سال سے یہی ڈرامہ بار بار دہرایا جا رہا ہے لیکن پاکستانی عوام ہیں کہ وہ ڈھول کی تھاپ اور ماتھے پر سیاسی پارٹی کا جھنڈا باندھے اپنے قائدین کے سامنے بھنگڑا ڈال رہے ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان جیسے زرعی اور خود مختار ملک میں آٹا لینے کے لئے جان تک کی قربانی دینا پڑتی ہے، سمجھ سے بالا تریہ بھی ہے کہ پاکستانی عوام ایسے عمل پر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟الیکشن آتے ہی وزراء،مشیر اور ایم پی اے ایم این ایز لوگوں کے گھروں میں ووٹ مانگنے آتے ہیں تب کوئی ا±ن کا گھیراو¿ نہیں کرتا، ا±ن سے اپنا حق نہیں مانگتا بلکہ ووٹر مستقبل کے حوالے سے کئے گئے وعدوں پر پھر ا±مید لگاتا ہے اور آنے والے کو ووٹ دے دیتا ہے۔ ا±میدوار جب دروازے پر بھکاری بن کر ووٹ مانگنے آئے تو ا±سے ”معاف کرو“ کہنا مشکل ترین مرحلہ بن جاتا ہے کیونکہ ا±میدوار دروازے پر آتے ہوئے اپنے ساتھ ووٹر کا ماما، چاچا، تایا یا متعلقہ ایس ایچ او، امام مسجد، یا ا±ن لوگوں کو ساتھ لے آتا ہے جن کا ووٹر مقروض ہوتا ہے۔ جب تک پاکستانی عوام اپنی پسند نا پسند اور تعلقات سے بالا تر ہو کر، سیاسی پارٹیوں کا جھنڈا چھوڑ کر وطن عزیز کا جھنڈا نہیں ا±ٹھائیں گے، جب تک ساری قوم ایک نہیں ہو گی تب تک نہ تو پاکستان بھیک مانگنے سے باز آئے گا اور نہ ہی عوام الناس کو ا±ن کا حق ملے گا، اپنے ملک کا جھنڈا ا±ٹھا کر اتفاق و اتحاد کی لڑی میں پروئے ہوئے لوگ جب پارلیمنٹ، گورنر ہاو¿سز، ایم پی اے، ایم این ایز اور نسل در نسل پاکستان کو لوٹنے والوں کا احتساب یا گھیراو¿ نہیں کریں گے تب تک نہ تو انقلاب آئے گا اور نہ عوام کے حالات ٹھیک ہوں گے۔پاکستان میں ایک دستور تو بہت ہی نرالا ہے وہ یہ کہ سابقہ حکومتیں موجودہ حکومت کو بھکاری کہتے کہتے زبان میں ”کھلیاں“ ڈلوا لیتی ہیں یہ تو یہ اِس قسم کی گفتگو سننے والے بھی خوب محظوظ ہوتے ہیں اور نعرے مار مار کر خطاب کرنے والے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں جبکہ سننے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ کون سا حکمران یا کون سی سیاسی جماعت ہے جو اقتدار میں آئی تو ا±س نے دوسرے ممالک سے امداد نہیں مانگی؟ امریکا کے ایئر پورٹس پر ہمارے سیاستدانوں کے کپڑے صرف اِس لئے ا±تارے جاتے ہیں کہ وہ امریکیوں نے ہی دیئے ہوئے ہیں اگر کپڑے ہمارے اپنے ہوں تو امریکا کبھی ا±تروانے کی جرا¿ت نہ کرے۔بس یہی سوچنے کی بات ہے۔