ظہرانے، نذرانے، فطرانے اور لنگرخانے!!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان                                                                                   
تجا ہلِ عا رفانہ                                  
الیکشن کی خبروں کی وجہ سے جلسے جُلوسوں کا پروگرام توکڑکتی سردیوںکی وجہ سے ماند پڑا ہوا ہے۔ البتہ ان یخ بستہ دنوںمیں ظہرانے اور عصرانے چل رہے ہیں۔ بیچاری مچھلیوں اور مرغیوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ مرغیوں کی کمبختی تو سارا سال رہتی ہے کیونکہ پوری قوم برائلرمرغیوںپرچل رہی ہے۔ برائلر مرغیاں کھا کھا کر ہماری قوم اور سیاستدانوں حکمرانوں کے دماغ بھی برائلر مرغیوں جتنے ہو گئے ہیں۔ لاہور میں پہلی بار اتنی سردی پڑی ہے کہ سب کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سے ایک چھوڑ ، ہزار اختلاف سہی لیکن انتخابات کے حوالے سے اُنکی بات میں وزن بھی ہے اور حقیقت بھی۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ شمالی علاقہ جات میں جنوری فروری انتہائی سخت اور جان لیوا سردی کے ہوتے ہیں۔ 31 دسمبر سے تو لاہور میں اتنی کڑاکے کی سردی پڑی ہے کہ لاہوریوں کی جان پر بن آئی ہے۔ لاہور میں آٹھ ماہ انتہائی گرمی پڑی ہے۔ دو ماہ موسم خوشگواراور دو ماہ موسم ٹھنڈا رہتا ہے لیکن یہ ٹھنڈ قابل ِ برداشت ہو تی تھی۔ اس مرتبہ اتنی شدت کی سردی پڑی ہے کہ کبھی بھولے بھٹکے سے دھوپ بھی نکلی تو با لکل بے جان، بے اثر اور ٹھنڈی برفیلی۔ سردی نے سورج کی بھی ٹھنڈا کر دیا ہے۔ ایسے میں شمالی علاقہ جات اور وہ تمام علاقے جہاں سخت سردی پڑتی ہے، اس مرتبہ پورے فروری میں وہاں برف کا راج رہے گا۔ اسلیے مولانا فضل الرحمان ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر8  فروری کو الیکشن ہوئے تو ٹرن آئوٹ صفر رہے گا۔ سینٹ میں بھی انتخابات ملتوی کرانے کے لیے تیسری قرارداد جمع کرا دی گئی ہے۔ سردی کے علاو ہ سیکیورٹی خدشات بھی اہم ہیں۔ اندازے تو یہی لگا ئے جارہے ہیںکہ الیکشن مارچ کے اختتام یا اپریل میں ہونگے تاہم سیاستدانوں نے ماحول کو گرمانے کے لیے عصرانے اورظہرانے تعلقات بنانے راہیںہموار کر نے کے بہترین طریقے ہیں۔ہمارے ہاں تو لوگ ایک کپ چائے اوربسکٹ پر اپنا ایمان، اپنی رائے اپنا ووٹ اور اپنی وفاداری بیچ دیتے ہیں جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ پاکستان میں ـ:بھوک:  اور معدے کی آ لائشوں کا یہ حال ہے کہ لوگ بلا وجہ کے نذرانے ،فطرانے اور توشہء خانے میں بھی ہاتھ کی صفا ئی دکھا جاتے ہیں ۔توشہ خان کی ابھی تک سچی داستانیں سامنے نہیں آئیں ورنہ پوری قوم کوپتہ چل جاتاکہ بھوک ذہن یا معدے تک محدود نہیں ہے۔ خواہشوں ارمانوں لالچ اور حرص کی بھوک بھی انسان کو پاگل کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں تو لوگ غریبوں کی مدد کے نام پر چندے، امدادیں، خیراتیں، ذکاتیں بھی کھا  جاتے ہیں۔ اُس پر لنگر خانوں کی لت نے قوم کوبالکل ناکارہ، نکمّا، نکھٹو، ہڈ حرام، کام چور اور بے شرم بنا دیا ہے جب نان حلیم، پلائوبریانی، قورمہ روٹی پکّے پکائے اور مفت ملیں گے تو لوگوں میں ہڈحرامی ہی پیدا ہوگی۔ لنگر خانوں نے غیرت حمیت محنت اور احسا س کو با لکل ختم کر دیا ہے۔ پنجاب میں مختلف اضلاع سے لیبر با لخصوص لاہو ر کارخ کرتی ہے۔صرف ایک سے دو ماہ کے اندر پورے کے پورے خاندان لاہور آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ راشن مانگتی ہیں۔ وہ راشن ڈنکے کی چوٹ پر مانگ کر لیجاتی ہیں۔ رمضان میں پورے مہینے کا مکمل راشن لیتی ہیں۔ فطرانے لیتی ہیں۔عیدیاںو صول کرتی ہیں سوٹ مانگتی ہیں۔ بقر عید پر چار پانچ کلو گوشت لیجاتی ہیں۔ چھوٹے گوشت کاالگ،بڑے گوشت کا الگ، کھال اوجڑی سری پائے سب مانگ کر لیجاتی ہیں۔ ہر پوش علاقہ میں نو دولتیوںنے ایک نئے رواج کا ڈول ڈالا ہے یعنی اپنی بلیک منی کو وائٹ منی بنانے کے لیے ہر ہفتے میں تین چا ر دیگیں بنوا کر ملازموں، مزدوروں اور غریبوں کے لیے لنگر کھول دیتے ہیں یا مسجدوں میں دیگیں بھجوا کر بانٹ دیتے ہیں جس سے اہلِ محلہ امام مسجد کے سامنے اُنکی فیاضی کے چرچے ہوتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی کرپشن غبن بے ایمانی اور رشوت کے پیسوں سے ہزاروں روپے کی دیگیں اللہ کے نام کی نکالکر پیسہ حلال کر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کا پیسہ تو حلال ہو جاتا ہے لیکن ان لوگوں نے پوری قوم کو نکھٹو اپاہج اور معذور بنا دیا ہے۔ لوگوں میں بے شرمی اور بے غیرتی بڑھا دی ہے۔ یہ لاکھوں کے حساب سے لیبر لاہور میں آ کر چرسیوں کی طرح پڑی رہتی ہے۔ عورتیں دو سے تین گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ہر گھر میں بیس سے تیس ہزار روپے تنخواہ مل جاتی ہے۔ کھانا مفت میں مل جاتا ہے۔ گھر کی مالکن سارا بچا کھچا کھانا کپڑے سب دے دیتی ہے اور اگر نہ بھی دے تو اشتہا انگیز خوشبو والے، مرغن مر غ و مسلم والے کھانے بھر بھر کر شاپر مل جاتے ہیں۔ ان عورتوںمیں سے کبھی کسی کا شوہر باپ بھائی بیٹا کا م نہیں کرتا کیونکہ ہر چیز تو مفت میں مل جاتی ہے، یہ مرد سارا دن عیاشی کر تے ہیں۔ یہ ابھی ایک صوبہ ایک ضلع کی بات بتا ئی ہے۔ یہ داتا کی نگری ہے۔ یہاں بہت لنگر خانے ہیںجنھوں نے لوگوں کو منفعل، نکھٹو، ناکارہ، کام چور اور ہڈ حرام بنادیا ہے۔ اسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پورے پاکستان کی لیبر لائنوں میں لگ کر پچیس ہزار روپے لیتی ہے اور مزے سے کھاتی ہے بلکہ صا حب حثیت بھی اس پروگرام سے پیسہ کھاتے ہیں۔ ایسے تمام پروگرامز نے پوری قوم کو نکما اور ناکارہ بنا دیا ہے۔ لوگ چرسی بن گئے ہیں۔ محنت کر کے حق حلال سے کھانے کا رواج دم توڑ رہا ہے۔ یہ جو اربوں روپیہ یُوں خیرات صدقات کی مدمیں بانٹا جاتا ہے۔ اسکی جگہ فیکٹریاں لگا ئی جائیں لوگوں کو روزگار کے مواقع دئیے جائیں۔ اُنکے لیے کام مقرر کر کے معا وضے دئیے جائیں تاکہ لو گ محنت اور غیرت کے عا دی ہوں۔ اگر کام چوری اور عیاشی کا یہی طریقہ را ئج رہا تو ہم اتنے پستی میں گر جائیںگے کہ کبھی اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ خدا کے لیے لوگوں میں غیرت حمیت اورمحنت کی عادت فروغ دیں ۔ صرف کھانا، بستر توڑنا اور مستانا زندگی نہیں لیکن جہاں ہر وقت معدوں میں آگ لگی ہو۔ ذہنی افلاس بھوک اور پیاس ہو۔ وہاں کسی کو سمجھا نا بھی بے سود ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن