حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود احمد سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
850 برس قبل سیستان میں غیر معمولی چراغ روشن ہوا جس کی روشنی سے گمراہی کے اندھیرے چھٹتے گئے۔ حضرت خواجہ غیاث الدین کے صاحب زادے نے دنیا میں پیغام الٰہی اور فروغ عشق رسول ﷺکی وہ جوت جگائی کہ خواب ضلالت میں مدہوش انسانوں کو سیدھی راہ مل گئی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی تاریخ پیدائش چار (یا چودہ ) رجب 537 (1142) ملتا ہے آپ بغداد' غزنی ارو دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے تبلیغی مشن پر لاہور پہنچے، یہاں حضرت داتا گنج بخش کے مزار اقدس پر چلہ کاٹا ،گویا جس مقصد کے لیے آپ نے چلہ کشی وہ پالیا۔ آپ نے حضرت داتا گنج بخش کو ان الفاظ میں عظمت وتحسین کا خراج پیش کیا
گنج بخش فیض عالم ' مظہر نور خدا
ناقصاں را میر کاملاں را رہنماء
ابتدائی دینی تعلیم خراسان میں حاصل کی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ایک باغ اور ایک پن چکی وراثت میں ملی۔ ایک دن اپنے باغ میں کام کر رہے تھے کہ ایک بزرگ عالم دین شیخ ابراہیم قندازی کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپ نے ان کی خاطر تواضع کی۔ شیخ ابراہیم قندازی نے ان کے لئے دعا کی اور آپ پر انوارالٰہی جلوہ گر ہوگئے۔ اس کے بعد آپ کا کام کاج میں جی نہ لگا اور تمام جائیداد فروخت کر کے غریبوں میں تقسیم کر دی اور سمر قند تشریف لے گئے۔ وہاں قرآن پاک حفظ کیا اور تعلیم و تربیت حاصل کی اور علوم متداولہ سے فارغ ہونے کے بعد نیشا پور کے ایک قصبے ہارون آباد میں جاکر خواجہ عثمان ہارونی سے باطنی فیض حاصل کیا اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ خواجہ کی معیت میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر کے ان سے اجازت لے کر اس وقت کے بزرگانِ دین سے فیض حاصل کرنے کے لئے بغداد تشریف لے گئے۔ وہاں سید عبدالقادر جیلانی ، شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ نجم الدین کبریٰ اور اوحد الدین کرمانی جیسے اولیائے کرام کی صحبت سے فیضیاب ہو کر لاہور پہنچے۔ کچھ عرصہ لاہور میں قیام کرنے کے بعد ملتان تشریف لے گئے اور کافی عرصہ تک وہاں رہے۔ اس دوران ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں بشمول ہندی پر مکمل عبور حاصل کر لیا۔ اور 561ھ میں اپنے مریدوں کو ساتھ لے کر پہلے دہلی اور پھر اجمیر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر مکمل سکونت اختیار کر لی۔ اس وقت ہندوستان پر کفر و شرک کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ جب آپ نے رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے دینِ حق قبول کر کے مسلمان ہونا شروع کر دیا۔ اس وقت کے دہلی اور اجمیر کے حکمران پرتھوی راج کو یہ ہر گز گوارا نہ تھا چنانچہ اس نے ہر حربہ استعمال کر کے آپ کو اشاعت دینِ حق سے روکنے کی کوشش کی۔ اللہ کی طرف سے نصرت آن پہنچی اور شہاب الدین محمد غوری نے حملہ کر دیا۔ پہلی دفعہ تو کامیابی حاصل نہ ہو سکی البتہ دوسرے معرکے میں کامیاب ہو گیا۔ اور 588ھ بمطابق 1192 میں دہلی اور اجمیر کو فتح کیا۔ پتھورا گرفتار ہو کر مارا گیا اور دہلی اور اجمیر پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے پوری زندگی دین کی خدمت اور تبلیغ میں گزار دی۔ آپ کو اولیاء کرام میں بلند ترین مرتبہ حاصل ہے۔ آپ نے لاکھوں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ آپ سے حضرت قطب الدین بختیار کاکی۔ شیخ کبریا اور شیخ فرید الدین گنج شکرنے براہ راست فیض حاصل کیا تھا، آپ کے بارے میں جو مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں ا?ن میں آپ کی تعلیما ت کی بجائے کرامات کا ذکر زیادہ پایا جاتا ہے حالانکہ آپ کے سامنے سب سے بڑا مشن تبلیغِ دین تھا جس میں حد درجہ کامیابی حاصل کی۔ بلاشبہ ہندوستان میں آپ ہی کی تبلیغ سے کفر و جہالت کی جگہ اسلام اور ایمان کی روشنی پھیلی یہ ا?نہی کا سرچشمہ فیض تھا کہ جس جگہ بھی پہنچے بستیوں کی بستیاں اسلام کے نور سے مالا مال ہوگئیں۔