گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ڈیجیٹل و الیکٹرانک میڈیا کا دور تو پچاس سال پہلے شروع ہو چکا تھا مگر اس کو جدت سوشل میڈیا کی شروعات سے ہوئی، ایک دور تھا کہ لائوڈ اسپیکر اور گراموفون کی ایجاد ہوئی تو اس وقت کے برصغیر کے اسلامی اسکالرز اور ملاّ و علماء نے کھل کر اس کی مخالفت کی ، اس سے پہلے چین کے لوگوں نے کاغذ بنانا سیکھا تو ہمارے اسلامی زعماء نے اس کے استعمال کو بھی حرام قرار دیا تھا پھر جب کاغذ سے پرنٹنگ پریس کی ایجاد ہوئی تو سلطنت عثمانیہ اور بر صغیر کے جید علماء نے اس کو غیر اسلامی قرار دیا تھا پھر جب ریڈیو، ٹیلی ویڑن اور ٹیلیفون و گاڑی ایجاد ہوئی تو ہمارے مذہبی زعماء نے ان ایجادات کو شیطانی چرخہ قرار دیا تھا یعنی ترقی اور جدت کی طرف جانے والے ہر راستے کو مسدود کرنے کی حتی وسعی کوشش کی گئی۔بات سننے والے کون لوگ تھے وہی تھے جنہوں نے اس وقت احتجاج کیا تھا مظاہرے کیے تھے جب انگریز اپنے دور میں برصغیر میں ریلوے لائن بچھا رہے تھاتو کچھ لوگوں ’’سائنسدانوں‘‘اور علماء کرام و پنڈتوں کی طرف سے کہا گیا کہ یہ لوہے کی زنجیریں ہیں جن کے ذریعے انگریز ہمارے وطن کو انگلستان کھینچ کر لے جائے گا۔
قارئین آج حالت یہ ہے کہ ہر مسجد ، مندر، گوردارے اور چرچ میں آپ کو اس دور کی ان ممنوعہ ایجادات کی انتہائی جدید شکل میں نہ صرف موجودگی ملے گی۔ بلکہ ترویج مذاہب کے لیے ان شیطانی ایجادات کا بھرپور استعمال بھی کیا جاتا ہے اور آن لائن لکھایا پڑھایا اور دکھایا جاتا ہے۔ خاص طور پر آج انٹرنیٹ، وائی فائی دور آنے کے بعد تو ان شیطانی ایجادات کی ضرورت اور طلب اس قدر بڑھ گی ہے کہ اکثر خطیب ، ذاکر ، پادری اور پنڈت ’’ بلو ٹوتھ‘‘ کانوں میں لگا کر اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح جدید ڈیجیٹل دور کی کفرانِ نعمت سے مستفید ہوتے نظر آتے ہیں۔
قارئین اکرام! پاکستان میں بات ان حدوں سے کافی آگے بڑھ چکی ہے، جس طرح قیام پاکستان سے قبل آج کی دو مشہور سیاسی جماعتیں پاکستان بننے کی نہ صرف مخالفت کرتیں تھیں بلکہ پاکستان کو کافرستان تک پکارا گیا مگر آج وہ دونوں نیم سیاسی اور مذہبی جماعتیں نظریۂ پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا ؟ کا راگ الاپتی نظر آتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح چھوٹے درمیانے جریدوں ، میگزین اور ہفت روزہ و پندرہ روزہ رسائل کے رپورٹرز حضرات کسی بھی اشاعتی ادارے سے بزنس ، کلچرل و شوبز یا سیاسی جماعت کی بیٹ رپورٹنگ حاصل کر کے اپنی روزی روٹی چلا لیتے تھے، الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد ان میں سے کچھ ذہنی اسمارٹ لوگوں نے خود کو الیکٹرانک میڈیا سے منسلک کر لیا جس سے ان کی آمدن اور بود و باش رہن سہن میں خاطر خواہ جدت نظر آنے لگی۔جو صحافی سائیکل گھسیٹا کرتے تھے وہ آج وی 8 مرسیڈیز پجیرو اور جہازوں سے نیچے اترنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کے فارم ہاؤسز ہیں محلات ہیں اور اربوں کے کاروبار ہیں بچے ان کے ملک سے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔چلیں صحافت نے کسی کا تو کچھ سنوارا ہے۔
پھر جب پاکستان میں سمارٹ فونز اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور سماجی رابطوں والی ویب سائٹس کے ذریعے عام آدمی تک پہنچا تو تو آخیر ہوگئی ہر ڈرائیور، کنڈکٹر، خوانچہ فروش، مزدور و ریڑھی بان، گڈر یے چرواہے حتی کہ خاک روب کے ہاتھ میں موبائل فون آگیا ( میں یہاں نوائے وقت کے قارئین کو بتاتا چلوں کہ لاہور جوہر ٹاون میں رہائش گاہ والی ذیلی سڑک سے دو باپ بیٹے کوڑا اٹھانے آتے تھے اور وہ ریڑھی پر ہوتے، باپ ریڑھی چلاتا بیٹا ایک ہاتھ سے کوڑا اٹھاتا اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پر ریڑھی پر بیٹھے باپ سے گفتگو کرتا نظر آتا۔ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ اتنا بیلنس کیسے چارج کرواتے ہو تو لڑکا بولا ہم نے پیکیج لگوایا ہوا ہے اور اس وقت ہی بات کرتے ہیں جب پیکیج آن ہوتا ہے )یاد رہے یہ 2010ء کے دورانیے کی بات ہے۔پھر سوشل میڈیا کا دور آیا جس نے پاکستان سمیت پوری دنیا کی ثقافتیں، رسم و رواج اور تہذیبوں کو بدل دیا ، آج کوئی بھی شخص ایک موبائل، ایک عدد مائیک پکڑ کر کسی کے بھی گھر ، دفتر ، دُکان یا فیکٹری میں جا گھستا ہے اور انویسٹی گیشن جرنلزم کے نام پر آزادیٔ اظہار خیال اور انسانی حقوق کے پرخچے اڑا دیتا ہے ، کوئی ضابطہ اخلاق ان کے لیے مقرر نہیں ، کوئی ملکی یا بین الاقوامی قانون یہ مد نظر نہیں رکھتے ، خاص طور پر تھانوں اور دیگر سرکاری دفاتر میں جا کر غل غپاڑہ کرتے ہیں۔
قارئین اسی طرح آج کل الیکشنز کا دور دورہ ہے ہر یوٹیوبر ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور برائے نام ٹی وی چینلز کے نابالغ بے روزگار چھاپہ بردار ایک مائیک ہاتھ میں پکڑے آپ کے منہ میں مائیک گھسیڑ کر آپ سے ایکدم سوال کرتے ہیں کہ ’’ ووٹ کس کا‘‘ یعنی آپ کے آزادی اظہار کے حق کو مجروح کرتے ہوئے یہ خیال تک نہیں کرتے کہ ان کے اس عمل سے آپ کی پرائیویسی کو کس قدر خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ؟ یہاں تو اتنی نفرتیں پھیلا دی گئی ہیں کہ کوئی مخالف پارٹی کی نہ صرف یہ کہ بات سننے پر تیار نہیں ہے بلکہ ان کی کوئی حمایت کرتا ہوا نظر آئے تو اس کو جان سے مار دینے تک بھی لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ایسے میں جب کوئی یہ کہے گا کہ میں نے فلاں پارٹی کو فلاں شخص کو ووٹ دینا ہے ،اس کے مخالف تک یہ بات پہنچے گی جو کہ سوشل میڈیا پہنچائے گا تو ناقابل برداشت رویوں کے اس دور میں اس شخص کا کیا حشر ہو سکتا ہے۔
حکومت وقت اور خاص طور پر الیکشن کمیشن کو آج کے ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی ضابطہ اخلاق ترتیب دینا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروانا چاہیے اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا رپوٹرز کے لیے ایسے تربیتی پروگرام یا ڈپلومہ و ڈگری کلاسز کا اجراء کیا جانا چاہیے ، جس سے ہمارا معاشرہ ایک مہذب معاشرہ نظر آئے ، ناں کہ ایک بے ہنگم، بے ترتیب اور قانون سے بے خبر جانوروں کا بھاڑا نظر آئے۔ باقی سارے کام تو اربابِ اختیار کے بس میں ہیں اور ان پہ عمل کروانا بھی صرف حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تو پھر ’’جو چاہے حسن آپ کا کرشمہ ساز کرے ‘‘