’’شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔‘‘

آزاد گروپ کی جانب سے سینٹ میں انتخابات کے التواء کیلئے اچانک لائی گئی اور اس سے بھی زیادہ اچانک منظور کرائی گئی قرارداد کے حوالے سے میرا گمان یہی تھا جس کا اظہار میں نے اپنے گزشتہ کالم میں کر بھی دیا تھا کہ جب تک ’’متعلقین‘‘ کو یقین نہیں ہو جاتا کہ پی ٹی آئی اور اسکی قیادت انتخابی میدان میں موجود نہیں رہی‘ اس وقت تک چیف جسٹس کے ’’پتھر پر لکیر‘‘ کہنے کے باوجود انتخابات کے 8 فروری کو شیڈول کے مطابق انعقاد پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔ ’’متعلقین‘‘ کی جانب سے یقیناً بندوبست تو سارا اسی حکمت عملی کے تابع ہوا اور اپنے خلاف اس حکمت عملی کی نوبت لانے والی بھی خود پی ٹی آئی اور اسکی قیادت ہے جس نے ریاستی اداروں کو گالم گلوچ کرتے اور دھمکیاں دیتے ہوئے رگیدنا اپنی عوامی مقبولیت کی سیڑھی بنایا۔ ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کے ساتھ 9 مئی جیسے کھلواڑ کی نوبت لائے‘ قومی پرچم کی توہین و تضحیک کی‘ پاکستان پر دشمن کی جانب سے ایٹم بم گرانے کی خواہش کا اظہار کیا اور اقتدار میں عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں والی سوچ کے تحت عدلیہ اور فوج سمیت تمام ریاستی اداروں میں تقسیم پیدا کرکے انہیں کمزور کرنے کی سازش کی۔ اور پھر جیل میں پڑے ہوئے بھی منہ پر ہاتھ پھیر کر یہ دھمکی نما بڑ ماری کہ مجھے جیل سے باہر آنے دو‘ میں ایک ایک کرکے سب کا حساب برابر کروں گا‘ سب پر دفعہ چھ لگائوں گا۔ تو پھر جناب!  ’’آبیل مجھے مار‘‘ والی سوچ نے پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کو یہی دن دکھانے تھے جن کا آج انتخابی میدان میں انہیں سامنا ہے۔ 
آپ ہر قاعدے‘ قانون کو ’’مدھول‘‘ کر محض عوامی مقبولیت کے زعم میں ریاستی اداروں کیخلاف اودھم مچانا شروع کر دیں اور اپنی ارض وطن کی حرمت و تقدیس اور بقاء و سلامتی کو بھی اپنے سیاسی ایجنڈے کے سامنے ہیچ سمجھنے لگیں تو جائز تو کجا‘ ناجائز طریقے سے بھی آپ کیلئے اقتدار اور اقتداری سیاست کا راستہ بند کرنے کا جواز نکل آتا ہے۔ اور اب تو عدلیہ میں آپ کے سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر آئین و قانون کو موم کی نازک بنانے‘ آئین سازی کا اختیار بھی اپنی جانب منتقل کر لینے اور ہم خیال بنچ کے ذریعے آپ کے اتاولے پن کو خوش آمدید کہہ کر اس کیلئے راستے نکالنے اور فضا ہموار کرنیوالا سازگار ماحول بھی موجود نہیں‘ پھر بھی آپ کو زعم ہو کہ ’’مستند ہے میرا  فرمایا ہوا‘‘۔ تو جناب! اس سے بڑی بھول اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہ تو سرا سر نادانی ہے۔
آپ تو اپنے عہد اقتدار میں بھی اپنی مخالف جماعتوں اور انکی قیادتوں کو چور ڈاکو کہتے ہوئے لٹھ لے کر انکے پیچھے پڑے رہے تو جناب آپ کی ’کلٹ‘‘ سوچ کی بنیاد پر انتخابی میدان میں اٹھائے جانیوالے طوفان بدتمیزی سے اپنا دامن بچانے کیلئے آپ کی مخالف ان جماعتوں اور انکی قیادتوں کی جانب سے ہر جائز‘ ناجائز طریقے سے آپ کا راستہ روکنا یا اس کیلئے متعلقہ ریاستی اداروں کی معاونت کرنا بھی ان کی مجبوری بن گیا۔ 
میرے ذہن میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں کہ پی ٹی آئی کے بانی قائد کو قانون و انصاف کی عملداری کے تحت ہی عدالتی ریلیف نہیں ملا کیونکہ ان کیخلاف سنگین نوعیت کے جو مقدمات درج اور دائر ہوئے ہیں‘ وہی انکی ضمانت پر رہائی کے آگے رکاوٹ بنے ہیں۔ یہ مقدمات سیاسی نہیں‘ فوجداری ہیں جو انکے ساتھ قانون کے مطابق انصاف کے متقاضی ہیں۔ اور پھر پی ٹی آئی کی بطور پارٹی رجسٹریشن اور اسکے انتخابی نشان کی واپسی بھی کسی سیاست کے تحت نہیں بلکہ قانون کے عین مطابق ہوئی ہے۔ قانون کا تقاضا یہی ہے کہ پارٹی فنڈز اور انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے کسی جماعت میں ہونیوالی بے ضابطگی کی پکڑ الیکشن کمیشن نے ہی کرنی  ہے چنانچہ قانونی اختیار کے تحت یہ پکڑ الیکشن کمیشن نے کی تو بلے کے انتخابی نشان کیلئے پشاور ہائیکورٹ کا عبوری ریلیف دینا بھی کسی کام نہ آیا کیونکہ سپریم کورٹ میں انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی میں ہونیوالی ساری بے ضابطگیاں ثابت ہو گئیں۔ پھر سپریم کورٹ میں، جہاں اب آئین و قانون کا اور انصاف کی عملداری کا ڈنکا بج رہا ہے‘ قانون کے مطابق ہی فیصلہ آنا تھا۔ اس پر آئین کی دفعہ 17 شق 2 والا ہر شہری کا جماعت سازی والا حق جتانا اور اس پر چائے کے کپ میں طوفان اٹھانا چہ معنی دارد؟ جبکہ آئین کی اسی آرٹیکل میں اور پھر آرٹیکل 19 میں بھی جماعت سازی اور اظہار رائے کی آزادی کو ملک کی سلامتی و خودمختاری‘ نظریہ پاکستان اور ریاستی اداروں کا احترام ملحوظ خاطر رکھنے کے ساتھ مشروط کرکے ان دونوں معاملات میں شتربے مہار آزادی کے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ آپ آئین و قانون اور اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرینگے تو آئین و قانون کی متعلقہ شقیں کیا خاموش تماشائی بنی رہیں گی۔
ان ٹھوس حقائق کے باوجود میرا بنیادی تجسس آج یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے معاملہ میں جب آئین و قانون کی عملداری کے تمام تقاضے پورے ہو چکے ہیں اور انتخابی میدان میں بطور پارٹی اس کا داخلہ قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے تو اب بھی ’’متعلقین‘‘ کو آٹھ فروری کے انتخابات کیوں کھٹک رہے ہیں اور ’’سنجی‘‘ ہوئی گلیوں میں بھی انتخابات سے گریز کا ماحول بنانے کی کیوں کوشش کی جا رہی ہے۔ انتخابات ملتوی کرانے کیلئے آزاد گروپ کی جانب سے سینیٹ میں پہلی اور دوسری قرارداد کے لائے جانے تک تو پی ٹی آئی کے بطور جماعت انتخابی میدان میں موجود ہونے کا متعلقین اور پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کو اسکی ’’کلٹ‘‘ سیاست کے ساتھ وابستہ خوف برقرار تھا اس لئے پہلی قرارداد ہائوس میں کورم نہ ہونے کے باوجود پلک جھپکتے منظور بھی ہو گئی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس قرارداد کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوانے میں بھی پھرتی دکھا دی جبکہ بروقت انتخابات اور جمہوریت کی حامی جماعتوں کو سینیٹ میں اس قرارداد کی مخالفت اور کورم کی نشاندہی کی دانستاً توفیق بھی نہ ہوئی۔ اسی طرح انتخابات کے التواء کی دوسری قرارداد لائے جانے تک بھی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے باعث پی ٹی آئی کے انتخابی میدان میں موجود ہونے کا خوف برقرار تھا اس لئے اس قرارداد پر بھی بروقت انتخابات کا بالاصرار تقاضا کرنے والی سیاسی قیادتوں نے مذمتی سلسلہ جاری کرنے سے گریز کیا مگر بھائی صاحب! اب تو پی ٹی آئی کی بطور پارٹی رجسٹریشن اور اس کا انتخابی نشان منسوخ کئے جانے پر سپریم کورٹ نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اسکے بعد بھی انتخابی میدان میں پی ٹی آئی کے حوالے سے آخر کونسا خوف لاحق ہے کہ سینیٹ میں انتخابات کے التواء کیلئے تیسری قرارداد لانے کی کی مجبوری لاحق ہوئی۔ کیا اس خوف کے علاوہ بھی انتخابات سے گریز کا کوئی ’’بندوبست‘‘ کیا گیا ہے۔ حضورِ والا۔ آئین اور اسکے تحت قائم سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کا  اب ماضی جیسا کوئی راستہ تو ہرگز نہیں نکالا جانا چاہیے۔  ایسے کسی بندوبست کے آگے تو یقینناً آئین و جمہوریت کی عملداری کے داعیان نے ہی دیوار بننا ہے۔ 
اس کیلئے فوری پیش رفت  اس طرح ہو سکتی ہے کہ سینیٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں باہم متفق ہو کر سینیٹ کا فوری اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دیں اور اپنے تمام سینیٹرز کو اس اجلاس میں موجود ہونے کا پابند بنائیں اور پھر انتخابات کے التواء کی دونوں قراردادیں بیک آواز مسترد کردیں۔ اور اس کے ساتھ ہی شیڈول کے مطابق انتخابات کے انعقاد کیلئے جماعت اسلامی کی پیش کردہ قرارداد کی بیک آواز منظوری دے دیں۔ اگر متعلقہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہائوس کے اندر اب بھی منافقت سے کام لیا جاتا ہے اور سینیٹ کا ہنگامی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دینے سے گریز کیا جاتا ہے  تو سمجھ لیجئے کہ جمہوریت گریز عناصر جمہوریت کی داعی سیاسی جماعتوں کی اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ گویا۔
’’ہمیں پتہ ہے ’’لٹیروں‘‘ کے ہر ٹھکانے کا 
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے                                                                 
اِنّا لِلّہ وَ اِنّا اِلَیہ رَاجِعْون۔

ای پیپر دی نیشن