عنبرین فاطمہ
’’سید نور‘‘کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور فلم میکرز میں ہوتا ہے انہوں نے معروف صحافی اور شاعرہ رخسانہ نور کے ساتھ شادی کی۔ رخسانہ نور کینسر کے مرض میں مبتلاہوئیں اور سات سال قبل اس مرض کے ساتھ جنگ لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئیں۔ ان کی برسی کے موقع ہم نے ان کے شوہر سید نور اور بیٹے شازل نور سے خصوصی گفتگو کی۔ سید نور نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ میں آج زندگی میں جس بھی مقام پر ہوں اس میں رخسانہ نور کا بہت بڑا کردار ہے۔ انہوں نے میرا زہنی توزان خراب نہیں کیا کہ میں سوچ نہ سکوں یا میں وہ کر نہ سکوں جو میں کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ آپ کہا ں تھے گھر کیوں نہیں آئے ہمیں وقت کیوں نہیں دیا۔ انہوں نے میرے گھر کو بنایا میرے بچوں کو پڑھایا لکھایا وہ تمام ذمہ داریاں ادا کیں جو شاید میرے بھی حصے کی تھیں۔ انہوں نے کہا میری ان سے پہلی ملاقات یوں ہوئی کہ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا میں آپ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہوں۔ ان دونوں میری دوستی جاوید فاضل کے ساتھ بہت زیادہ تھی ان کی تقریبا ساری فلمیں میں ہی لکھا کرتا تھا۔ رخسانہ میرا انٹرویو لینے آئیں تو اس وقت جاوید فاضل بھی دفتر میں ہی موجود تھے۔ رخسانہ نے مجھے کہا کہ میرا نام رخسانہ آرزو ہے میں نے کہا کہ جی ٹھیک ہے پوچھئے کیا پوچھنا ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ پر بہت زیادہ الزامات ہیں آپ فلرٹ بہت کرتے ہیں ، رومانہ اور شمسی شیخ سے آپ کا کیا تعلق ہے تو میں نے کہا بس دوستی ہے لیکن میں چڑ گیا میں نے کہا کہ آپ یہاں انٹرویو کرنے آئی ہیں یا میرے سکینڈلز یا دوستیاں گنوانے آئی ہیں۔ میں نے کہا میں انٹرویو نہیں دے رہا میں انٹرویو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے بعد جاوید فاضل نے مجھے کہا کہ تم نے لڑکی کے ساتھ بہت بدتمیزی کی ہے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کو انٹرویو اب ضرور دینا ، میں نے کہا ٹھیک ہے۔ رخسانہ سخت مزاج کی تھیں لیکن وہ اتنی زہین تھی اور ایسی بات کرتی تھی کہ جو کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ خیر ایک دن پھر مجھے رخسانہ نور کا فون آیا اور اس نے کہا میں آپ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہوں مجھے انہوں نے اچھرہ میں ایک فوٹوگرافر کے سٹووڈیو میں بلوایا۔ میں وہاں گیا تو وہاں یہ آئیں تو مجھے دیکھ کر سوری کہنے لگیں میں نے کہا کہ سکینڈل اور دوستیاں گنوانی ہیں تو پھر میں انٹرویو نہیں دوں گا اس سے ہٹ کر بات کریں۔ وہ بولیں ٹھیک ہے۔ انٹرویو ہو گیا وہ چلی گئیں اس بار انٹرویو بہت اچھا رہا۔ سید نور نے کہا کہ میں اْن وقتوں میں بہت مصروف ہوتا تھا ایک ہی وقت میں چالیس فلمیں لکھ رہا ہوتا تھا۔ ایک دن میں ایورنیو سٹوڈیو گیا وہاں ایک لڑکے نے کہا کہ ایک لڑکی صحافی آپ سے ملنے آئی ہے میں نے کہا کون ہے تو بولا مجھے نام نہیں پتہ۔ میں کمرے میں گیا تو آگے یہ بیٹھی ہوئی تھیں مجھے کہنے لگی کہ میں آپ کا انٹرویو لیکر آئی ہوں چھپ گیا ہے مجھے یقین تھا کہ آپ نے نہیں دیکھا ہو گیا کیونکہ آپ بہت مصروف رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ جی میں نہیں دیکھ سکا انہوں نے مجھے انٹرویو دکھایا اور پوچھنے لگی کیسا لگا میں نے کہا کہ پڑھ کر بتائوں گا تو بولی کہ دیکھنے میں کیسا لگ رہا ہے تومیں نے کہا کہ تصویریں بہت بری ہیں تو کہنے لگی کہ لکھا بہت اچھا ہے اس کی یہ بات آج بھی مجھے یاد ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ ہم صحافی اس کام کی رشوت لیتے ہیں میں نے کہا میں کیا کروں آپ کے لئے تو کہنے لگی کہ مجھے کھانا کھلائیں میں ہنس پڑا میں نے کہا کہ ٹھیک ہے کھلا دیتے ہیں پھر میں ان کو کھانا کھلانے لے گیا۔ میں اْن وقتوں میں بہت زیادہ روشنیوں میں تھا شادی کی آفرز بھی تھیں لیکن میں ایسی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا جو میرے گھر کودیکھے تو مجھے لگا رخسانہ سے ہی شادی کر لینی چاہیے۔ میں نے اس سے کہا کہ کیوں نہ ہم شادی کرلیں تو انہوں نے کہا میں بھی یہی سوچتی ہوں ، اس نے فورا ہاں کر دی اس نے نہیں پوچھا کہ مجھ سے شادی کیوں کررہے ہیں وجہ کیا ہے۔ فورا کہا اپنی بہن سے ملواتی ہوں اس کے بعدان کے والد نے مجھے سیالکوٹ بلوایا میں وہاں گیا ان کی والدہ والد سے ملاقات ہوئی بہت اچھی ملاقات رہی ان کے والد نے ہاں کر دی یوں میرے چند عزیز تھے اور ہماری شادی ہو گئی ، شادی کے فورا بعد مجھے فلم’’ ہلچل‘‘ کی شوٹنگ پر جانا تھا لیکن رخسانہ نے کہا کام کریں اور جائیں ، اس نے گلہ نہیں کیا کہ نئی نئی شادی ہے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بلکہ اس نے مجھے ہمیشہ زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے حوصلہ دیا اسی لئے تو کہتا ہوں کہ آج جو بھی ہوں رخسانہ کی وجہ سے ہوں۔ اس نے مجھے کام فری مائنڈ کے ساتھ کرنے کی پوری آزادی دی۔ مجھے یاد ہے کہ فلم’’ چین آئے نہ‘‘ کی میں شوٹنگ کراچی میں کررہا تھا یہ بیمار تھیں میں کام چھوڑ کر ان کو دیکھنے لاہورآیا تو کہنے لگی کہ میں بالکل ٹھیک ہوں کیوں آئے ہیں اپنے کام پر توجہ دیں۔ ایک سوال کے جواب میں سید نور نے کہا کہ رخسانہ شادی کے بعد گھر یلو ذمہ داریوں اور بچوں میں پڑ گئی تھی اور میرا زیادہ وقت سٹوڈیو میں گزرتا تھا میری وہاں صائمہ کے ساتھ زہنی ہم آہنگی ہوگئی۔ ہم نے شادی کا فیصلہ کر لیا اور جب رخسانہ کو علم ہوا تو اس نے لڑائی جھگڑا نہیں کیا بس دبے لفظوں میں ہی بات کرتی تھی۔ اس نے اگر کبھی سخت الفاظ بھی استعمال کئے تو میرے لئے کئے صائمہ کے لئے نہیں۔ بلکہ ایک بار صائمہ اقبال ٹائون میں شوٹنگ کررہی تھی اور وہاں کچھ لوگ سیٹ پر آگئے تو ہمارا ڈرائیور ان کو ہمارے گھر یعنی جہاں رخسانہ رہتی تھی وہاں لے آیا۔ رخسانہ نے گاڑی کھڑی دیکھی تو پوچھا گیٹ کیپر سے کہ کون آیا ہے تو اس نے کہا صائمہ آئی ہیں۔ تو وہ سیدھا کچن میں گئی اور اس کے کھانے کا انتظام کیا۔ یوں رخسانہ صائمہ کو عزت دیتی تھی اور صائمہ رخسانہ کو۔ رخسانہ نے اگر مجھے کام کرنے کا موقع دیا تو صائمہ نے اس میں نکھار پیدا کیا۔ شازل نور نے کہا کہ میری والدہ بہت اچھی تھیں انہوں نے ہمیشہ مجھے بڑوں کی اور عورتوں کی عزت کرنا سکھائی۔ خصوصی طور پر پاپا کی۔میں اگر کبھی کہہ دیتا کہ پاپا میرے سکول نہیں آئے میرا اتنا اہم ایونٹ تھا تو وہ مجھے ڈانٹ کر کہتی تھیں کہ میں آگئی ہوں کافی نہیں پاپا کے خلاف ایک لفظ نہ کہنا۔