تحریک انصاف کی "ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے" والی لچک۔

جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ تحریک انصاف ان دنوں ریاستی عتاب کا نشانہ نہیں وہ متعصب اور دروغ گو ہے۔ یہ بات لکھنے کے بعد یاد یہ بھی دلانا ہوگا کہ چند ہی سال قبل تک نواز شریف کی مسلم لیگ بھی ویسی ہی مشکلات کا سامنا کرتی رہی ہے جو ان دنوں تحریک انصاف کا مقدر ہوئی نظر آرہی ہے۔مسلم لیگ (نون) سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی جولائی 1977ء سے 1985ء تک مسلسل زیر عتاب رہی۔ جنرل ضیاء کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد بھی ریاست کے مقتدر اداروں نے اسے معاف نہیں کیا۔صدر غلام اسحاق خان افسر شاہی کے ذریعے محترمہ کی پہلی حکومت کو لگام ڈالتے رہے۔آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے سے ابھرے وزیر اعلیٰ نواز شریف کو وفاقی حکومت سے متھا لگانے کے عمل میں ریاست نے ان کی سہولت کاری کاکردار ادا کیا۔عدلیہ کا عمومی رویہ بھی اس جماعت کے ساتھ مخاصمانہ ہی رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اس کی بدترین مثال ہے۔ قصہ مختصر وطن عزیز میں تقریباََ ہر بڑی سیاسی جماعت ریاستی عتاب کی زد میں رہی ہے۔عوام کے منتخب نمائندوں کو 1950ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی بدعنوان اور نااہل ثابت کرنے کی کارروائی شروع ہوگئی تھی۔اس کی بدولت ہمیں بحیثیت قوم جنرل ایوب،جنرل ضیاء  اور جنرل مشرف جیسے ’’دیدہ وروں‘‘ کے انتظار واستقبال کو اْکسایا گیا۔ان دنوں ریاستی عتاب کی زد میں آئی تحریک انصاف اور اس کے جذباتی حامی مگر مذکورہ بالا حقائق کو نظرانداز کئے جارہے ہیں۔نہایت فخر سے دعویٰ کیے جارہے ہیں کہ ’’تاریخ میں پہلی بار‘‘ ان کی جماعت کو بدترین ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔اپنے بارے میں ’’شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے؟‘‘ جیسا گھمنڈ تحریک انصاف کو وسیع تر عوامی حمایت سے محروم کئے جارہا ہے۔اس جماعت کے سرکردہ رہ نما ئوں کو مگر اس کا احساس بھی نہیں ہورہا۔اصولی طورپر مجھے تحریک انصاف سے کوئی ہمدردی محسوس کرنا نہیں چاہیے۔سوشل میڈیا کے ذریعے اس جماعت نے جب اس پر واجب تنقید کے عادی صحافیوں کو ’’لفافہ وبدکار‘‘ وغیرہ ثابت کرنا شروع کیا تو میں اس کے ابتدائی ’’دشمنوں‘‘میں سرفہرست تھا۔ اس کے باوجود عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش کی تو بارہا گھر کی راحتیں چھوڑ کر ان کی جانب سے ہوئے احتجاج کی رپورٹنگ کے لئے پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان جاتا رہا۔آج تک بانی تحریک انصاف کی ذاتی زندگی اس کالم یا کسی ٹی وی پروگرام کے دوران زیر بحث نہیں لایا۔اپریل 2016ء سے اس جماعت کو مستقل مزاجی سے سمجھاتا رہا کہ ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے ذریعے جو گیم نواز حکومت کو کمزور کرنے کے لئے لگائی جارہی ہے وہ تاریخی جبر کی بدولت تحریک انصاف کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ ’’اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے‘‘ میری فریاد رہی۔اس پرخلوص رائے پر توجہ دینے کے بجائے عمران حکومت نے اگست 2018میں برسراقتدار آتے ہی مجھے ایک ٹی وی چینل سے فارغ کروادیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’دی نیشن‘‘ میری مدد کو آگے بڑھے اور مجھے دل کی بھڑاس نکالنے اور صحافتی شعبہ میں زندہ رہنے کے لئے نہایت مشکل حالات میں اپنے پلیٹ فارم مہیا کئے۔ مجھ پر جو بیتی اسے ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے ہوئے ان کالموں میں فریاد کرتا رہا کہ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے کے ارادے کو بھلادیا جائے۔اس کی کامیابی صرف عمران خان اور ان کی جماعت ہی کو نہیں بلکہ طویل المدت تناظر میں تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچائے گی۔دو ٹکے کے رپورٹر کی فریاد مگر کسی نے سنی نہیں۔شہباز شریف کی قیادت میں عمران مخالف قوتوں نے جمع ہوکر تحریک انصاف کو آئینی مدت مکمل کرنے نہیں دی۔ اس سے قبل عدالتی مداخلت کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف بھی وزارت عظمیٰ سے فارغ کروائے گئے تھے۔ ان کی فراغت کے باوجود ان ہی کی جماعت سے ابھرے راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی نے آئینی مدت مکمل کی۔عمران حکومت کی جگہ شہباز حکومت کا اپریل 2022ء میں قیام میری دانست میں یہ پیغام دے رہا ہے کہ آئندہ انتخاب کے بعد قائم ہوئی حکومتوں کو بھی ثبات نصیب نہیں ہوگا۔ 1950ء کی دہائی کی طرح ہمارے وزیر اعظم یا صوبوں کے وزرائے اعلیٰ محاورتاََ ہر دوسرے دن بدلے جائیں گے۔مستقبل کے بارے میں زائچہ نویسی کے بجائے حال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تحریک انصاف سے ا لتجا کرنا ہوگی کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنی مشکلات کا واحد ذمہ دار ثابت نہ کریں۔ان کے قائد کا درحقیقت مقتدرکہلاتی قوتوں سے جھگڑا 2021ء کے ابتدائی مہینوں ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ وہ ان قوتوں کے ساتھ ’’نبھاہ‘‘ کے قواعد ’’ایک قدم آگے دو قدم پیچھے‘‘ والی لچک کے باعث مگر ثابت قدمی کے ساتھ طے نہیں کر پائے ہیں۔غضب سے مغلوب ہوئے مقتدر قوتوں کے ساتھ اپنے اختلافات کو بلکہ ’’تخت یا تختہ‘‘ والی جنگ بنائے ہوئے ہیں۔کوئی سیاسی جماعت ریاستی قوتوں کے ساتھ اختلافات کو جنگ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کرے تو بالآخر نقصان اسی کا ہوتا ہے۔سیاسی جماعتیں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے اپنے اہداف کی جانب بڑھتی ہیں اور ان کے حصول کیلئے ’’یکا وتنہا مجاہد‘‘ ہونے کی دعوے دار بھی نہیں ہوتیں۔ ان کی بقا اور تحفظ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ وسیع تر بنیادوں پر بنائے اتحاد ہی کے ذریعے ممکن ہے۔سیاست جب ’’نظریاتی‘‘ ہوا کرتی تھی تو ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اور مولانا مودودی کی جماعت اسلامی دو انتہا?ں کی نما ئندہ تھیں۔ ’’سیکولر ‘‘ اور ’’دینی قوتیں‘‘ مگر ایوب حکومت کے خلاف متحد ہوگئیں۔بعد ازاں ان دونوں جماعتوں نے باہم مل کر ذوالفقار علی بھٹو کے آمرانہ رحجانات کو للکارا۔ تحریک انصاف کو بھی اب ’’اخلاقی بلندی‘‘ کے خمارسے باہر آکر دیگر سیاسی جما عتوں اور سول سوسائٹی سے پرخلوص مکالمے کے ذریعے اپنے ہمدرد اور خیرخواہ ڈھونڈنا ہوں گے۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ تحریک انصاف کی مشکلات کے واحد ذمہ دار نہیں۔ ان کے حقیقی اسباب سپریم کورٹ نہیں کسی اور جگہ موجود ہیں۔انہیں بخوبی سمجھنے کے بعد ہی تحریک انصاف اپنے لئے آسانیاں ڈھونڈ سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن