انہوں نے روتے ہوئے مذمت کی۔

Jan 16, 2024

عبداللہ طارق سہیل

امریکی ’’قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کوئی جان کربی صاحب ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ امریکہ کو ایسا کوئی ثبوت، شہادت یا علامت نہیں ملی جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ اسرائیل نے غزہ میں کوئی نسل کشی کی ہے۔ انہوں نے نسل کشی کے الزامات کو جھوٹ قرار دیا۔ غزہ میں 30 ہزار فلسطینی شہید کر دئیے گئے، 80 ہزار زخمی ہیں اور آٹھ سے دس ہزار اب بھی ملبے کے ڈھیر تلے پڑے ہیں، زندہ کہاں ہوں گے، وہ بھی مر کھپ چکے ہوں گے لیکن امریکہ کہتا ہے کہ کوئی نسل کشی سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ 
امریکہ کے نزدیک نسل کشی کا پیمانہ ہولوکاسٹ کی تعداد کے برابر ہے۔ یعنی جب 60 لاکھ فلسطینی شہید ہو جائیں گے تو اس سے زیادہ جو بھی شہید ہوں گے، انہیں نسل کشی کے زمرے میں ڈالا جاسکے گا۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ غزہ میں کل 20 لاکھ فلسطینی ہیں۔ سب کے سب مار دئیے جائیں تب بھی 40 لاکھ کی کمی رہ جائے گی۔ اس کے بعد مغربی کنارے والے 20 لاکھ مار دئیے جائیں تو بھی 20 لاکھ کم پڑ جائیں گے۔ یعنی فلسطینی نسل پوری کی پوری ناپید کر دی جائے، نسل کشی کا الزام اسرائیل پر تب بھی عائد نہیں کیا جا سکے گا۔ 
شاید یہی وجہ ہے کہ تین طاقتور عرب ملک اسرائیل سے مسلسل یہ درخواست کئے جا رہے ہیں کہ مار دو، ایک ایک فلسطینی کو مار دو، ایک بھی زندہ بچنے نہ پائے، کون سا تم پر نسل کشی کا الزام لگ جانا ہے۔ 
______
کربی والی بات اسرائیلی صدر بھی کر چکا، اس نے کہا ہم پر نسل کشی کا الزام لگانا سفّاکیت ہے۔ اسرائیلی صدر نے کہا، مظلوم تو ہم ہیں، -7 اکتوبر کو ظلم ہم پر ہوا۔ 
مظلوم لوگوں کی سوچ ہر جگہ ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ایک مظلوم ترین سے ایک مقدمے کی سماعت کے موقع پر اخبار نویس نے پوچھا کہ کیا آپ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں تو عظیم مظلوم لیڈر نے کہا، 9 مئی کو ظلم تو مجھ پر ہوا، ہم پر ہوا۔ 
جس طرح تمام ’’ذہین‘‘ لوگ ایک جیسا سوچتے ہیں، اسی طرح تمام ’’مظلوم‘‘ لوگ بھی ایک ہی جیسا سوچتے ہیں۔ 
______
جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کے انتخابات کالعدم قرار دینے اور بلّے کا نشان واپس لینے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ ایک ریلی سے خطاب کے موقع پر جماعت اسلامی کے رہنما سخت دل گرفتہ نظر آئے اور انہوں نے گلوگیر لہجے میں سپریم کورٹ کو ہدف تنقید بنایا۔ 
ریکارڈ کی درستگی کیلئے عرض ہے کہ فیصلہ سخت ’’ظالمانہ‘‘ سہی لیکن یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ الیکشن کمشن کا فیصلہ تھا جس پر پشاور کی حق پرست عدالت نے فیصلہ دیا اور کمشن کا حکم کالعدم قرار دے دیا، یہ کہہ کر کہ الیکشن کمشنر اس طرح کے فیصلہ کا مجاز نہیں ہے۔ ہائیکورٹ نے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، صرف یہ کہا کہ الیکشن کمشن کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔ اس پر الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ جا کر اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ 
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمشن اس طرح کا فیصلہ دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس طرح بلّے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رہا۔ 
بہرحال جماعت اسلامی کے شیوخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور ووں بھی۔ 2017ء میں سپریم کورٹ نے کسی بھی قانون کے نہ ہوتے ہوئے بھی ایسا ہی ایک فیصلہ دیا تھااور ایک سیاسی جماعت کی مشکیں کس دی تھیں، کسی بھی جرم کے بغیر، کسی بھی فرد جرم کے بغیر، ملزم کو صفائی کا ایک پل بھی دئیے بغیر۔ تب جماعت کے شیوخ نے اس فیصلے کو حق سچ کی فتح ، انصاف کا بول بالا قرار دیتے ہوئے جی بھر کے مٹھائی کھائی تھی اور کھلائی تھی۔ 
صرف جماعت اسلامی نہیں، میڈیا کے سو سے اوپر ’’شیوخ‘‘ نے بھی تب ہر روز کئی گھنٹوں کے حساب سے سپریم کورٹ کے اْس فیصلے پر جشن منایا تھااور کہا تھا قانون سب کیلئے برابر ہے۔ آج یہ میڈیائی شیوخ جن کی تعداد سو سے کچھ کم رہ گئی ہے، اس تازہ فیصلے کو ظلم ، ناانصافی اور باطل کا بول بالا قرار دے کر مجلس ہائے گریہ و بکا برپا کئے ہوئے ہیں۔ 
ہر دو قسم کے شیوخ ، بہ الفاظ دگر یہ فیصلہ صادر فرما رہے ہیں کہ ان کے ممدوح خان پر کسی قانون کا اطلاق نہ کیا جائے۔ 
______
بلاول بھٹو نے کیا خوب دھمکی دی ہے،فرمایا ہے، شیر کا شکار تیر سے کریں گے اور شیر کو اس کے گھر میں گھس کر ماریں گے۔ 
یعنی وہ فرما رہے ہیں کہ پنجاب شیر کا گھر ہے اور ہم اپنے گھر سے شیر کے گھر آئیں گے اور پھر اسے گھر میں گھس کر ماریں گے۔ 
یہ ہے انقلاب چرخ گرداں… پنجاب کبھی پیپلز پارٹی کا گھر ہوا کرتا تھا…لاہور ، لائل پور (جو اس دور کے بعد فیصل آباد بنا، گوجرانوالہ، پنڈی ملتان، یہ سب شہر ’’لاڑکانہ‘‘ کہلاتے تھے۔ یہ کئی عشرے پہلے کی بات ہے۔ وہ عشرے کب کے گزر گئے اور بلاول نے اب آ کر مانا کہ پنجاب ان کا نہیں، اب کسی اور کا گھر ہے۔ ہمارا گھر کہیں اور ہے۔ 
______
دلچسپ خبر یہ ہے کہ ’’آزاد‘‘ امیدوار کو بوتل کا انتخابی نشان مل گیا ہے، گنڈاپور صاحب بوتلوں کے حوالے سے خوب مشہور ہیں۔ ایک بار پولیس نے ان کی گاڑی سے بوتلیں برآمد کیں جن پر ’’بلیک لیبل‘‘ لکھا تھا۔ پوچھنے پر بتایاکہ ان بوتلوں میں اسلامی شہد ہے، بلیک لیبل اسلامی شہد، خالی بوتل کا انتخابی نشان نامکمل ہے، الیکشن کمشن سے گزارش ہے کہ نشان پر ’’بلیک لیبل اسلامی شہید‘‘ کا نام بھی نمایاں حروف میں درج کرائیں۔ 
______
بوتل والی خبر سے بھی زیادہ دلچسپ البتہ ’’نہایت سنجیدہ‘‘ خبر یہ ہے کہ پنڈی کی المشہور لال حویلی سے 9 سال کے بعد پی ٹی آئی کے پرچم اور گریٹ خان کی تصویریں اتار دی گئی ہیں۔ قبل ازیں حویلی نشیں عرف چلّے والے شیخ کا یہ شکوہ آیا تھا کہ میں نے چلّہ کاٹا لیکن خان نے میرے چلّے کی بھی قدر نہ کی اور میرے مقابلے پر امیدوار کھڑے کر دئیے۔ ایک میڈیا رپورٹر کی خبر ہے کہ خان نے ایک بات شیخ آف چلّہ کے کان میں کی تھی جو شیخ نے گیٹ نمبر 4 والوں کو دوران چلّہ بتا دی۔ تب سے ناراضگی ہے۔

مزیدخبریں