علماءدین کا کردار

Jul 16, 2010

پروفیسر سید اسراربخاری
اگر اس ملک کو ایک ایوان مان لیا جائے تو جملہ علماءدین اس کے اُسی طرح ارکان ہیں جیسے اسمبلیوں کے ارکان ہوتے ہیں اور ان کے بھی اپنے فرائض ہیں جیسے اسمبلیوں کے ارکان کے فرائض ہوتے ہیں۔ علماءدین کے پاس ممبرِ رسول ہے جس کے صحیح استعمال سے وہ معاشرے کو کافی حد تک سنوار سکتے ہیں۔ ہر مہینے میں علماءدین کے چار سیشن جمعة المبارک کے دن مقرر ہوتے ہیں اور ہر طرح کا مسلمان کچھ بھی ہو کم از کم جمعہ کی نماز ضرور ادا کرتا ہے اور جتنی دیر مسجد میں رہتا ہے عالم دین کے خطبے کو بڑے غور سے سنتا ہے کیونکہ اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اسے اللہ کا فرمان سنایا جا رہا ہے جس پر عمل کرنا اس کا دینی فریضہ ہے مگر یہ بات قدرے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں علماءکرام جن موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں ان میں بالعموم عام زندگی، انسانوں کی طرح گزارنے کی تعلیم کا عنصر موجود نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ لوگوں کو قبر کے عذاب سے ڈرایا جائے اور روزِ جزا کی سختیوں سے آگاہ کیا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں مسلمانوں کو شہری آداب اور اچھی زندگی کے طور طریقے بھی بتانے چاہئیں، مثال کے طور پر شہریوں کو بتایا جائے کہ اسلام نے راستے کے آداب کیا بتائے ہیں، ایک دوسرے کی دل آزاری سے کہاں تک منع کیا جاتا ہے، اختلافی اور فروعی مسائل اور فرقہ وارانہ اختلافات کے ثبوت میں دلائل کے انبار کیوں لگائے جاتے ہیں اور انہیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ مساجد کسی سُنی، دیوبندی، بریلوی اور وہابی کی نہیں بلکہ اللہ کی مساجد ہیں جو ایک ایسا کمیونٹی سنٹر ہیں جہاں مسلمانوں کے دکھ درد کا علاج کیا جاتا ہے اور انہیں دوسرے مذاہب کے افراد سے بھی حُسنِ اخلاق کا درس دیا جاتا ہے۔ مساجد میں جو خطبہ دیا جاتا ہے وہ دراصل مسجد کے اندر موجود لوگوں کے لئے ہوتا ہے اور انہیں ہی خطاب کیا جاتا ہے ناکہ سڑک پر کھڑے لوگوں کو سنایا جاتا ہے پھر اتنے زیادہ لاوڈ سپیکروں کی کیا ضرورت ہے۔ معاشرے میں معاشرتی زندگی کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ علماءکرام زندگی بسر کرنے کا سلیقہ طریقہ بتانے کے بجائے اپنا اپنا مسلک اور فلسفہ بیان کرنے پر سارا وقت صرف کر دیتے ہیں۔ عوام الناس میں اب بھی علماءدین کا بے حد احترام موجود ہے اگر وہ چاہیں تو اپنے مقام و مرتبے کو زندگی کے عام مسائل کے حل کے لئے موثر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اذان کا مطلب لوگوں کو نماز کے وقت سے آگاہ کرنا مقصود ہے مگر جب اذانوں سے اذانیں ٹکراتی ہیں تو لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ لاوڈ سپیکر کا استعمال اگر ضرورت کے مطابق کیا جائے تو اسلامی تعلیمات زیادہ بہتر طریقے سے لوگوں تک پہنچ سکتی ہیں۔ جس طرح ہم نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جاتے ہیں اسی طرح علماءدین کی تقریر سننے کے لئے بھی مسجد میں جاتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ اگر امام اپنا خطبہ گھروں میں بذریعہ لاوڈ سپیکر پہنچائے تو مسجد میں آ کر خطبہ سننے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ عین اس وقت مسجد میں جاتے ہیں جب نماز جمعہ کی اذان ہو جاتی ہے۔ ہم نے سعودی عرب اور دوسرے کئی اسلامی ممالک میں دیکھا ہے کہ مسجد کے اندر ہی ساونڈ سسٹم کام کرتا ہے جس کی آواز مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں تک محدود ہوتی ہے اور باہر مسجد کے مینار پرایک آدھ لاوڈ سپیکر صرف اذان کے لئے مختص ہوتا ہے۔ مساجد معاشرے کے وہ دینی ادارے ہیں جو معاشرے کی اصلاح کے لئے بہت بڑا کام کر سکتے ہیں مگر ہم نے اپنی طرح مساجد کو بھی فرقوں، عقیدوں اور اختلافی مسائل میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اسلام میں دین دنیا سے الگ نہیں بلکہ دنیا میں بہتر انداز میں جینے کا نام ہی دین دنیا ہے۔ بددیانتی، کرپشن، رشوت ستانی، بداخلاقی ایسے موضوعات ہیں جن پر مدلل انداز میں خطبہ دے کر خطیبانِ ملت اسلام کی بہترین خدمت کر سکتے ہیں۔
مزیدخبریں