لاہور (خصوصی رپورٹر) مسلم لیگی دھڑوں کے سہ جماعتی اتحاد نے دیگر مسلم لیگی دھڑوں اور ہم خیال سیاسی جماعتوں کا ”گریٹر الائنس“ بنانے پر اتفاق کیا ہے تاکہ قوم کو متبادل، بااعتبار قیادت پر مشتمل پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے۔ سہ جماعتی اتحاد کا اگلا اجلاس کراچی میں پیر صاحب پگاڑہ کی رہائش گاہ پر ہو گا۔ اجلاس نے قرار دیا کہ موجودہ حکمران جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ ان کی پالیسیوں اور عمل سے جمہوریت خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ سہ جماعتی اتحاد کا اجلاس گذشتہ روز سابق وزیر خارجہ اور مسلم لیگ ہم خیال کی سٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین میاں خورشید محمود قصوری کی رہائش گاہ پر ہوا جس میں سابقہ وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی، مسلم لیگ (ق) کے بانی صدر میاں محمد اظہر، اعجازالحق، حامد ناصر چٹھہ، گوہر ایوب خان، میاں خورشید قصوری، ہمایوں اختر خان، جہانگیر ترین، امتیاز شیخ، مخدوم احمد محمود، مقبول شیخ، کیپٹن حلیم صدیقی، اللہ شاد محمد خان، امین اسلم خان، علی سجاد ملہی، عطا محمد مانیکا، شیخ انور سعید، سلطان محمود خان، سردار اسرار ترین، عزیزالحق قریشی، سردار طفیل خان، شیخ طاہر رشید، کشمالہ طارق، عاصمہ ممدوٹ، سینیٹر فوزیہ، فخر زمان، شاہد انجم ایم پی اے، رانا امتیاز اور دیگر شامل تھے۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال سمیت امن و امان کی بگڑتی حالت، حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر ہونے والی دہشت گردی، بلوچستان میں حبیب جالب بلوچ کی ٹارگٹ کلنگ سمیت کراچی کی ٹارگٹ کلنگ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں شرکاءنے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ یہ تجویز سامنے آئی کہ سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد کو ”گریٹر پاکستان الائنس“ کا نام دیا جائے۔ اس میں قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے۔ اجلاس میں مسلم لیگی دھڑوں کے الائنس کے حوالے سے مقررین نے متضاد خیالات کا اظہار کیا۔ سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ تیز دوڑنے کی بجائے سنیجدگی سے سیاست کرنا بہتر ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ حکومت میں آ کر ہی عوام کے مسائل حل کئے جائیں۔ اپوزیشن میں رہ کر بھی حکومت پر دباو ڈالنے سے عوام کے مسائل حل کرائے جا سکتے ہیں۔ پچھلے دور میں بلوچستان کے ساتھ تین زیادتیاں کی گئیں۔ بلوچستان سے وزیراعظم (میر ظفراللہ جمالی) کو ہٹایا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹایا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔ لاہور والوں نے میرے ساتھ جو کیا وہ کس سے ڈھکا چھپا ہے، چودھریوں نے جو کچھ میرے ساتھ کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سابق گورنر پنجاب میاں اظہر نے کہا کہ مسلم لیگ مضبوط ہو تو سب کے لئے بہتر ہو گا۔ یوں بھی موجودہ حکومتیں عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتریں اس لئے متبادل پلیٹ فارم کی قبولیت ہو سکتی ہے۔ سابق وزیر خارجہ میاں خورشید قصوری نے کہا کہ جب تک ہم مشترکہ لائحہ عمل بنا کر خود کو پاکستان کی بقاءکیلئے وقف نہیں کریں گے اور عوامی جدوجہد میں شریک ہو کر خودکشیوں پر مجبور اور غربت کے شکار لوگوں کی مدد کرنے پر حکومت کو مجبور نہیں کر دیں گے اس وقت تک ہمیں کامیابی میں مشکل پیش آئے گی۔ سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خان نے کہا کہ مسلم لیگوں کا اتحاد اچھی بات ہے لیکن یہ مشکل ہے کہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اس اتحاد میں آئے۔ دوسری طرف چودھری صاحبان صدر یا سیکرٹری جنرل کا عہدہ تک دینے کے لئے تیار نہیں، ان کی اس اتحاد میں شمولیت بھی ممکن نہیں۔ پرویز مشرف آل پاکستان مسلم لیگ بنا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سہ جماعتی اتحاد میں شامل ہو جائیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ہی یہ تاثر ابھرنا چاہئے کہ ہماری طرف سے گویا مشرف لیگ کے لئے میدان ہموار کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل شیخ انور سعید نے کہا کہ مسلم لیگی دھڑوں کا اتحاد ضرور ہونا چاہئے لیکن اس کی بنیاد پہلے طے کی جائے۔ یہ طے کرنا چاہئے کہ اس اتحاد کا سربراہ کون ہو گا؟ اس اتحاد کی طرف سے وزیراعظم کا امیدوار کون ہو گا تاکہ لوگ جان سکیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے مقابلے میں ہم کونسی لیڈرشپ لائے ہیں۔ مسلم لیگ ہم خیال کے سیکرٹری جنرل ہمایوں اختر خان نے کہا کہ حکمران ناکام ہو چکے ہیں، اپوزیشن بھی ناکام ہو چکی ہے، ہمیں اصولوں پر اتحاد قائم کرکے تیسری قوت کی حیثیت سے سامنے آنا چاہئے تاکہ عوام کو چوائس مل سکے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں شریک رہنماوں نے مسلم لیگ (ن) اور ق لیگ کو اتحاد میں اہم رکاوٹ قرار دیا۔ اجلاس میں سلیم سیف اللہ اور شیخ رشید شریک نہیں ہوئے۔ اجلاس میں حکومت کی مختلف پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ فرینڈلی اپوزیشن اور حکومت کی کارکردگی پر سخت تنقید کی گئی۔ اجلاس میں شریک رہنماوں نے کہا کہ مسلم لیگ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے تاہم اتحاد میں بعض دھڑے رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔
لیگی دھڑوں کا اتحاد اور ہم خیال جماعتیں ”گریٹر الائنس“ بنانے پر متفق
Jul 16, 2010
لاہور (خصوصی رپورٹر) مسلم لیگی دھڑوں کے سہ جماعتی اتحاد نے دیگر مسلم لیگی دھڑوں اور ہم خیال سیاسی جماعتوں کا ”گریٹر الائنس“ بنانے پر اتفاق کیا ہے تاکہ قوم کو متبادل، بااعتبار قیادت پر مشتمل پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے۔ سہ جماعتی اتحاد کا اگلا اجلاس کراچی میں پیر صاحب پگاڑہ کی رہائش گاہ پر ہو گا۔ اجلاس نے قرار دیا کہ موجودہ حکمران جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ ان کی پالیسیوں اور عمل سے جمہوریت خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ سہ جماعتی اتحاد کا اجلاس گذشتہ روز سابق وزیر خارجہ اور مسلم لیگ ہم خیال کی سٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین میاں خورشید محمود قصوری کی رہائش گاہ پر ہوا جس میں سابقہ وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی، مسلم لیگ (ق) کے بانی صدر میاں محمد اظہر، اعجازالحق، حامد ناصر چٹھہ، گوہر ایوب خان، میاں خورشید قصوری، ہمایوں اختر خان، جہانگیر ترین، امتیاز شیخ، مخدوم احمد محمود، مقبول شیخ، کیپٹن حلیم صدیقی، اللہ شاد محمد خان، امین اسلم خان، علی سجاد ملہی، عطا محمد مانیکا، شیخ انور سعید، سلطان محمود خان، سردار اسرار ترین، عزیزالحق قریشی، سردار طفیل خان، شیخ طاہر رشید، کشمالہ طارق، عاصمہ ممدوٹ، سینیٹر فوزیہ، فخر زمان، شاہد انجم ایم پی اے، رانا امتیاز اور دیگر شامل تھے۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال سمیت امن و امان کی بگڑتی حالت، حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر ہونے والی دہشت گردی، بلوچستان میں حبیب جالب بلوچ کی ٹارگٹ کلنگ سمیت کراچی کی ٹارگٹ کلنگ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں شرکاءنے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ یہ تجویز سامنے آئی کہ سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد کو ”گریٹر پاکستان الائنس“ کا نام دیا جائے۔ اس میں قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے۔ اجلاس میں مسلم لیگی دھڑوں کے الائنس کے حوالے سے مقررین نے متضاد خیالات کا اظہار کیا۔ سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ تیز دوڑنے کی بجائے سنیجدگی سے سیاست کرنا بہتر ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ حکومت میں آ کر ہی عوام کے مسائل حل کئے جائیں۔ اپوزیشن میں رہ کر بھی حکومت پر دباو ڈالنے سے عوام کے مسائل حل کرائے جا سکتے ہیں۔ پچھلے دور میں بلوچستان کے ساتھ تین زیادتیاں کی گئیں۔ بلوچستان سے وزیراعظم (میر ظفراللہ جمالی) کو ہٹایا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹایا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔ لاہور والوں نے میرے ساتھ جو کیا وہ کس سے ڈھکا چھپا ہے، چودھریوں نے جو کچھ میرے ساتھ کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سابق گورنر پنجاب میاں اظہر نے کہا کہ مسلم لیگ مضبوط ہو تو سب کے لئے بہتر ہو گا۔ یوں بھی موجودہ حکومتیں عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتریں اس لئے متبادل پلیٹ فارم کی قبولیت ہو سکتی ہے۔ سابق وزیر خارجہ میاں خورشید قصوری نے کہا کہ جب تک ہم مشترکہ لائحہ عمل بنا کر خود کو پاکستان کی بقاءکیلئے وقف نہیں کریں گے اور عوامی جدوجہد میں شریک ہو کر خودکشیوں پر مجبور اور غربت کے شکار لوگوں کی مدد کرنے پر حکومت کو مجبور نہیں کر دیں گے اس وقت تک ہمیں کامیابی میں مشکل پیش آئے گی۔ سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خان نے کہا کہ مسلم لیگوں کا اتحاد اچھی بات ہے لیکن یہ مشکل ہے کہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اس اتحاد میں آئے۔ دوسری طرف چودھری صاحبان صدر یا سیکرٹری جنرل کا عہدہ تک دینے کے لئے تیار نہیں، ان کی اس اتحاد میں شمولیت بھی ممکن نہیں۔ پرویز مشرف آل پاکستان مسلم لیگ بنا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سہ جماعتی اتحاد میں شامل ہو جائیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ہی یہ تاثر ابھرنا چاہئے کہ ہماری طرف سے گویا مشرف لیگ کے لئے میدان ہموار کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل شیخ انور سعید نے کہا کہ مسلم لیگی دھڑوں کا اتحاد ضرور ہونا چاہئے لیکن اس کی بنیاد پہلے طے کی جائے۔ یہ طے کرنا چاہئے کہ اس اتحاد کا سربراہ کون ہو گا؟ اس اتحاد کی طرف سے وزیراعظم کا امیدوار کون ہو گا تاکہ لوگ جان سکیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے مقابلے میں ہم کونسی لیڈرشپ لائے ہیں۔ مسلم لیگ ہم خیال کے سیکرٹری جنرل ہمایوں اختر خان نے کہا کہ حکمران ناکام ہو چکے ہیں، اپوزیشن بھی ناکام ہو چکی ہے، ہمیں اصولوں پر اتحاد قائم کرکے تیسری قوت کی حیثیت سے سامنے آنا چاہئے تاکہ عوام کو چوائس مل سکے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں شریک رہنماوں نے مسلم لیگ (ن) اور ق لیگ کو اتحاد میں اہم رکاوٹ قرار دیا۔ اجلاس میں سلیم سیف اللہ اور شیخ رشید شریک نہیں ہوئے۔ اجلاس میں حکومت کی مختلف پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ فرینڈلی اپوزیشن اور حکومت کی کارکردگی پر سخت تنقید کی گئی۔ اجلاس میں شریک رہنماوں نے کہا کہ مسلم لیگ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے تاہم اتحاد میں بعض دھڑے رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔