”ایس ایم ظفر کی کہانی‘ انکی اپنی زبانی“

گذشتہ ہفتے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد مےں ان کی نئی کتاب” سنےٹر اےس اےم ظفر کی کہانی۔ان کی اپنی زبانی “ تقرےب رونمائی منعقد ہوئی جس مےں انہوں نے 9برس کی کہانی 9ماہ مےں قلمبند کر کے نئی آنے والی نسل کے لےے اثاثہ چھوڑا ہے پچھلے نوبرس کے دوران ہونے والے ان تمام” سےاسی جرائم“ کا ذکر کےا گےا ہے جو اےک فوجی ڈکٹےٹر کے دور مےں پاکستان کی سےاسی تارےخ مےں وقوع پذےر ہوتے رہے ہےں اےس اےم ظفر نے اپنے مشاہدات کو انتہائی احتےاط سے تحرےر کےا ہے اور اپنے دامن کو فوجی آمر کے دور کی آلودگی سے بچائے رکھا سنےٹر اےس اےم ظفر کی کہا نی پاکستان کی سےاست کی اےک اےسی داستان ہے جسے انہو ں نے اےک سنےٹر کی حیثےت سے دےکھا ہے ےہ بات قابل ذکر ہے سےنےٹر اےس اےم ظفر نے اپنی کتاب کی تقرےب رونمائی مےںمسلم لےگی رہنماﺅںراجہ محمد ظفرالحق،وسےم سجاد نے خاص طور پر شرکت کی مصنف نے مسلم لےگ کے اندر پائی جانے والی دھڑے بندی اور اسے ختم کرانے کے لےے جناب مجےد نظامی اور اپنی کوششوں کا خاص طور پر ذکر کےا ہے اور مسلم لےگ (ن) کی کوکھ سے جنم لےنے والی سرکاری مسلم لےگ کے اصل چہرے کو بے نقاب کےا ہے جو اےک فوجی آمر کے اقتدار کو طوالت دےنے کے لےے قائم کی گئی اور وہ بھی اسی جماعت کا حصہ بن کر رہ گئے اور اسی جماعت کے ٹکٹ پر 9سال تک سینیٹر رہے جب ان کی 8ستمبر 2007کو جنرل پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی بی بی سے ڈیل کے بارے مےں استفسار پر انہوں نے ہوا میں ہاتھ ہلاتے ہوئے صرف اس قدر کہا کہ” کوئی خاص بات نہیں وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی“۔ انہوں نے کمانڈو جرنےل سے پوچھ ہی لےاآپ بی بی کو تیسری ٹرم کی گنجائش دے کر ان سے بغیر وردی اپنے انتخاب کے لئے حمایت کی بات کیوں نہیں کرتے تاہم اس وقت انہوں نے این آر اوکے متعلق کوئی اشارہ نہےں دیا۔ 14ستمبر کی ایک ملاقات میں جنرل صاحب نے بتاےا کہ” میں نے امریکیوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو پر زیادہ انحصار نہ کریں“۔تاہم ےہ اےک حقےقت ہے امریکی صدر کے حکم پر کونڈو لیزا اور رچرڈ باو¿چر نے پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان دوبئی میں مذاکرات کروائے“۔ اےس اےم ظفر نے 17دسمبر 2007کو سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملاقات کے دوران این آر او کے بارے مےں ان کے کردار کے بارے مےن پوچھا تو انہوں نے سرسری کردار کا اعتراف کےا ”چار سال سے مارک لائل گرانٹ سابق ہائی کمشنر برطانیہ پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کو ایک میز پر بٹھانے کے لئے سرگرداں تھے تاکہ ملک میں دہشتگردی پر قابو پایا جا سکے“۔ جب برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا ک محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی تو بے نظیر بھٹونے کہا کہ امریکہ کے تعاون کے بغیر یہ پلان مکمل نہیں ہو سکتا۔جس کے بعد اس منصوبہ میں رچرڈ باو¿چر اور بعد ازاں کنڈولیزا بھی شامل ہو گئیں۔جب 27دسمبر 2007کو بے نظیر بھٹو قتل کر دی گئیں تو امریکی پالیسی ساز اداروں نے روڈ میپ پر تشویش کا اظہار کےا ٍ وائٹ ہاو¿س نے پینٹاگون اور اپنی ایجنسیوں کے ذمہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ہینڈل کرنے کا اشارہ دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے کراچی میں ایک ملاقات کے دوران بے نظیر بھٹو کی موت کے بعدکہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کو برتری نہیں مل سکے گی۔18فروری کے انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ق) کے لئے تیسرے نمبر پر آنا چوہدری برادران کے لئے ایک بڑا سیٹ بیک تھا۔ پروےز مشرف نے وردی اتار کر انتخاب لڑنے کے مشورہ پرمیرے جانے کے بعد جنرل حامد سے کہا کہ ” وہ وردی اتار کر انتخاب لڑنے کا اردہ رکھتے ہیں“ لیکن دوسرے ہی دن ان کو سپریم کورٹ کے ایک جج نے وردی اتار دینے کا اعلان کرنے پر ان کے حق مےں فیصلہ کا پےغام پہنچاےا۔آصف علی زرداری نے کمال ہوشیاری سے جنرل پرویز مشرف نے چوہدری برادران سے صدارت چھوڑنے کا مطالبہ کر کے ناراض کر دےا ۔

ای پیپر دی نیشن