ڈھاکہ+کراچی (نیوز ایجنسیاں + اے ایف پی) بنگلہ دیش میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ جنگی جرائم کی متنازعہ خصوصی عدالت نے جماعت اسلامی بنگلہ دےش کے سابق سربراہ پروفےسر غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ فےصلے کی اطلاع ملتے ہی بنگلہ دےش بھر مےں بالخصوص ڈھاکہ میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگےا۔ مشتعل مظاہرین نے پولیس پر شدید پتھراﺅ کیا اور گھریلو ساختہ چھوٹے دستی بم پھینکنے کے نتیجے میں 12 افراد زخمی ہوگئے۔ بوگرا کوہسلا اور راجشاہی میں مظاہرین نے درجنوں گاڑیاں نذر آتش کردیں۔ جنگی جرائم کی متنازعہ خصوصی عدالت کی طرف سے ماضی میں سنائے جانیوالے فیصلوں کے بعد شدید نوعیت کے ہنگاموں کا آغاز ہو گیا تھا۔ مظاہرین کے بقول 90 سالہ غلام اعظم پر عائد الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ 71ءمیں علیحدگی کی تحریک کے دوران جماعت اسلامی کے سربراہ غلام اعظم ہی تھے۔ 1971 ءمیں جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت انہےں سزا دی گئی۔ مختلف شہروں میں مظاہرے پر تشدد رنگ اختیار کر گئے اور مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم ہوا۔ بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت کی طرف سے 2010ء میں بین الاقوامی کرائمز ٹربیونل قائم کیا گیا تھا۔ یہ خصوصی ٹریبونل پہلے بھی جماعت اسلامی کے چار رہنماﺅں کیخلاف فیصلے سنا چکا ہے جن میں سے تین کو سزائے موت جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ بنگلہ دیش میں ریاستی استغاثہ نے غلام اعظم کا موازنہ نازی جرمنی کے اڈولف ہٹلر سے کرتے ہوئے ان کیلئے سزائے موت کا مطالبہ کےا تھا۔ ان کے بقول ملزم نے جنگی جرائم کے مرتکب دیگر افراد کی رہنمائی کی تھی۔ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی اور اپوزیشن کے اہم رہنماﺅں کی اپےل پر پیر کو ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ اپوزیشن کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی بنگلہ دیش کے اس جنگی ٹربیونل کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ حیثیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس عدالت میں جن ملزمان کیخلاف مقدمے چلائے جا رہے ہیں، ان کا تعلق یا تو جماعت اسلامی سے ہے یا پھر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی سے۔ غلام اعظم اس وقت سیاسی طور پر سرگرم نہیں ہیں لیکن وہ بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے روحانی رہنما تصور کئے جاتے ہیں۔ ان پر جرائم کی منصوبہ بندی، سازش، تشدد پر اکسانے، قتل اور اذیت رسانی جیسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گےا۔ غلام اعظم پر مجموعی طور پر 61 الزامات عائد کئے گئے، غلام اعظم کے وکیل تاج الاسلام کے بقول استغاثہ انکے موکل کیخلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس متنازعہ ٹریبونل کی طرف سے ماضی میں سنائی جانے والی سزاﺅں کے خلاف عوامی سطح پر شروع ہونیوالے پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 150 بتائی جاتی ہے۔ پیر کو پروفیسر غلام اعظم کو سزا سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیش بھر میں پھر پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین میں شدید جھڑپیں ہوئیں حکام کے مطابق جماعت اسلامی کے مشتعل کارکنوں نے پولیس پر شدید پتھراﺅ کے علاوہ گھریلو ساختہ چھوٹے دستی بم پھینکے جس کے نتیجے میں ڈھاکہ میں 12 افراد زخمی ہو گئے۔ بوگرا کوہسلا اور راجشاہی کے شہروںمیں مظاہرین نے درجنوں گاڑیاں نذرآتش کردیں۔ پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔ خصوصی نامہ نگار کے مطابق امیر جماعت اسلامی پاکستان منورحسن نے بنگلہ دیش کے نامور سکالر پروفیسر غلام اعظم کو دی جانیوالی 90 سالہ سزائے قید کی شدید مذمت کی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بنگلہ دیش حکومت کے ایما پر عالمی جنگی جرائم ٹریبونل نے بزرگ رہنما کو” حب الوطنی“ کے جرم میں 90 سال قید کی سزا سنا کر انصاف کو پامال کیا ہے۔ عوامی لیگ حکومت نے نام نہاد عالمی جنگی جرائم ٹریبونل کے ذریعے سیاسی مخالفین کو عمر قید اور سزائے موت دینے کا سلسلہ شروع کر رکھاہے جو بین الاقوامی قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ بیگم حسینہ واجد حکومت نے بزرگ رہنما کیلئے 90 سال سزاکے ذریعے بدترین سیاسی رویے کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس فیصلے سے بنگلہ دیشی حکومت عالمی برادری میں اپنے وقار سے محروم ہوچکی ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل ختم کیا جائے اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت کو رہا کیاجائے۔ علاوہ ازیں پروفیسر غلام اعظم کو 90 سال سزا کیخلاف کراچی سمیت پاکستان کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔