غزہ ایک بار پھر اسرائیلی فضائیہ کی بمباری اور آرٹلری کی گولہ باری کی زد میں ہے۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 200 کے قریب فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، زخمیوں کی تعداد 1000 سے تجاوز کر چکی ہے اور کئی ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ جاں بحق ہونیوالوں اور زخمیوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جس میں عورتیں اور بچے سب سے زیادہ ہیں۔ رہائشی مکانوں، مسجدوں، سکولوں، سپورٹس کلبوں، پبلک پارکس، بجلی کی تنصیبات معذوروں کی بحالی کے مراکز تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پینے کے پانی اور سیویج کی آٹھ تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے جس سے 350000 فلسطینی شہری متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یواین آر ڈبلیو اے) کی پچاس کے قریب تنصیبات کو نشانہ بنایا جا چکاہے جس میں یو این او کے زیر انتظام نوسکول بھی شامل ہیں۔ غزہ کا تین چوتھائی حصہ بمباری سے بجلی کی تنصیبات تباہ ہونے کی بنا پر تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔ بچے خوف میں مبتلا ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گلوبل ورلڈ میں کوئی ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ ہونیوالی اس بربریت کو محسوس کرے اور وہ سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کہنے کی جرأت کر سکے اور پھر غزہ کے شہریوں کا قصور کیا ہے یہی کہ وہ مسلمان ہیں اور وہ اقوام عالم میں عزت سے جینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی دھونس کو نہیں مانتے۔
تین یہودی لڑکوں کے مبیّنہ اغوا کا معاملہ مذاکرات کی میز پر بھی حل ہو سکتا تھا۔ حماس نے تو اس سے واضح طور پر لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا ،ویسے بھی نومبر 2012ء کے امن معاہدے کے بعد ٹمپریچر نارمل تھا۔ پھر اسرائیل کو بھی ذمہ داری کامظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ بے بنیاد الزام کی بنا پر غزہ کو فلسطینیوں کے خون میں نہلا دیا گیا۔ پھر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی غزہ میں قتل عام جاری رکھنے پر ڈھٹائی سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ حماس کی طرف سے امن معاہدہ کی پابندی انہیں یکسر ناگوارگذر رہی تھی۔ اور وہ پہلے سے کسی نہ کسی بہانہ کی تلاش میں تھے۔ اگر نیت میں فتور ہو تو بہانے ڈھونڈنے میں کونسی دیر لگتی ہے۔ ایسے لوگوں کو بھیڑیئے اور میمنے کی کہانی دہرانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی، وزیراعظم یاہو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہوتاہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اپنے مخصوص انداز میں غزہ میں بہنے والے خون پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ سلامتی کونسل نے فائر بندی کی قرارداد بھی منظور کرلی ہے۔ مگر اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ قارئین کی اطلاع کیلئے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بعض قراردادیں صرف منہ رکھنے کیلئے منظور کی جاتی ہیں، عملدرآمد مقصد نہیں ہوتا اور یہ فریقین کو پابند بھی نہیں کرتیں۔ ایسی قراردادیں یو این چارٹر کے چیپٹر 6 کے تحت منظور کی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک قرارداد نمبر 47 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 21 اپریل 1948ء کو منظور کی تھی جس کی رو سے ایک پانچ رکنی کمیشن نے کشمیر کے منصفانہ فیصلے کیلئے برصغیر کا دورہ کرکے پاک بھارت حکومتوں سے کوارڈینیشن کے ساتھ کشمیر میں رائے شماری کا جائزہ لینا تھا۔ یہ بھی چیپٹر 6 کی قرارداد تھی۔ قرارداد ریکارڈ پر ہے اسکے باوجود کشمیری آج تک اپنا یہ حق مانگ رہے ہیں۔ یو این او کی جو قرار داد یں فریقین کو پابند کرتی ہیں‘ وہ یو این چارٹر کے چیپٹر 7 کے تحت منظور ہوتی ہیں۔ ترکی کے صدر عبداللہ گل نے اسرائیل کو متنبّہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ کرنے سے باز رہے۔ اپنے تحریری بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ فریقین نومبر 2012ء کے فائر بندی کے معاہدے پر لوٹ آئیں، جبکہ وزیراعظم طیّب اردگان نے اپنے علیحدہ بیان میں یہاں تک کہ دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک غزہ پر حملے بند نہیں ہوتے۔ واضح رہے کہ 31 مئی 2010ء کو انٹرنیشنل واٹرز پر غزہ فریڈم فلوٹیلا غزہ میں انسانی ہمدردی کے تحت امدادی سامان لے جاتے ہوئے بین الاقوامی پانیوں میںاسرائیلی کمانڈوز نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے حملہ کر دیا تو ترکی کے شپ ایم وی ماوی مارمارا پر 590 میں سے 40 مسافروں نے مزاحمت کی۔ جس میں ترکی کے نو شہری جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے اور ایک اسرائیلی کمانڈو مارا گیا۔ فریڈم فلو ٹیلا کا مقصد غزہ کیخلاف اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنا تھا۔ ترکی نے تین مطالبات کئے۔ ترکی کا پہلا مطالبہ تھا کہ اسرائیل معافی مانگے۔
دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ اسرائیل معاوضہ ادا کرے۔ ترکی کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی ختم کرے۔ پہلے دونوں مطالبے پورے ہونے کے باوجود ترکی نے واضح کردیا تھا کہ جب تک غزہ کی ناکہ بندی ختم نہیں ہوگی ترک اسرائیل تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ اب بھی ترکی نے باہمی تعلقات کی بحالی کو غزہ پر حملے بند کرنے سے مشروط کرکے اقوام عالم میں جان دار پوزیشن لی ہے۔ پاکستان نے پریس ریلیز جاری کرکے واضح کردیا ہے کہ اسے غزہ میں ہونیوالی خونریزی پر تشویش ہے اور وہ غزہ میں اسرائیلی حملے بند کرنے کی عالمی کوششوں کی حمائت کریگا۔ قطر نے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ مگر اسرائیلی وزیر اعظم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کسی عالمی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر حماس کی قوت کا خاتمہ کرکے ہی دم لے گا۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری کے دورہ کے موقع پر مصرنے فائر بندی کی تجویز پیش کی ہے جس کے مطابق دونوں فریقوں سے برّی بحری اور ہوائی حملے بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ تادمِ تحریر اسرائیل یا حماس دونوں میں سے کسی بھی جانب سے تجویز کو قبول کرنے کا اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔ تاہم اگر نومبر 2012ء کے سیز فائر معاہدے میں مصر کے کردار کو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کے دورہ مصر کے تناظرمیں دیکھا جائے تو اس تجویز کے قبول ہونے کے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک غزہ اسرائیل تنائو کے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت سامنے آچکی ہو جو کہ یقینا باعث مسرت ہوگی لیکن اصل بات یہ ہے کہ اقوام عالم کو تماشہ دیکھتے رہنے کی بجائے تنازعہ کا پائیدار حل تلاش کرنیکی کوشش کرنی چاہئیے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک منصفانہ طریقے سے حملہ آور کا ہاتھ نہ روکا جائے۔ سویلین آبادی، سکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں، رہائشی مکانوں، بوڑھوں، عورتوں اوربچوں کو نشانہ بنانا جنیوا کنونشن 4 کی خلاف ورزی ہے اور خلاف ورزی کے مرتکب سفّاک اور ظالم درندے مستوجب سزا ہیں۔
حماس نے بھی راکٹ فائر کئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں یا اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب کون ہے۔ اگر عالمی تنازعات کے حل میں مساوات اور انصاف کو اصول بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا سے جنگ و جدل اور فساد کا خاتمہ نہ ہو۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ظلم وزیادتی کا تصور نہیں ہونا چاہیے مگر بد قسمتی ہے کہ تعصب اور طاقت نے اس جدید دنیا میں آج بھی جگہ جگہ فرعون پال رکھے ہیں جو انسانوں کو اصول، مساوات اور انصاف کی بجائے لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کے اکثر معتبر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بجائے کرسی کی خاطر خاموشی سے طاقتور کے سامنے سر نگوں ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل کی مثال سامنے ہے، اتنی بڑی دنیا میں چند ایک کے سوا کسی کو تشویش نہیں ہوئی۔ چند ممالک میں عوام نے احتجاج کیا ہے مگر باقی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تنازعات فسادات کا روپ دھار لیتے ہیںاور یوں آج کی مہذب دنیا میں امن و آشتی کی بجائے جنگ و جدل ہی انسان کا مقّدر ہے۔