خدمت قوم ہے اگر معیار

جب ہم تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں ادبی محاذ پر ایک ایسی ہستی نظر آتی ہے جس نے اپنی اعلیٰ شاعرانہ صلاحیتوں کو ملت اسلامیہ اور وطن عزیز پاکستان کیلئے وقف کر دیا تھا اور جو زندگی کے آخری لمحے تک بھی پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے مخالفوں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ اس شخصیت کا نام ابوالاثر حفیظ جالندھری ہے۔ حفیظ صاحب 14 جنوری 1900 میں جالندھر میں ایک سفید پوش گھرانے میں پیدا ہوئے تعلیم چھٹے درجے تک حاصل کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں چھوٹی چھوٹی ملازمتوں پر گزارا کیا لیکن ادب سے رشتہ نہ توڑا اور مشق سخن جاری رکھی۔ ان کا سینہ بچپن سے ہی دین سے منور تھا چنانچہ نو عمری میں جو پہلا شعر کہا وہ ان کی دین سے وابستگی کا آئینہ دار تھا۔
محمدؐ کی کشتی میں ہوں گا سوار
تو لگ جائیگا میرا بیڑا پار
اپنی خداداد صلاحیتوں‘ انتھک محنت اور لازوال ادبی محنت سے بہت جلد ناموری حاصل کر لی اور نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت نے آپ کے قدم چومے۔ 1942ء میں آپ اینٹی فاشٹ پراپیگنڈا کے شعبہ سالنگ پبلسٹی میں پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے۔ 1947ء میں ڈائریکٹر جنرل مورال آرمڈ سروسز آف پاکستان مقرر ہوئے 1955ء میں فیلڈ ڈائریکٹر آف پبلسٹی ویلج ایڈمنسٹریشن بنے اور 1961ء میں ڈائریکٹر ادارہ تعمیر نو پاکستان مقرر ہوئے۔ ان خدمات کے علاوہ تحریک پاکستان کے دنوں میں آپ نے مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کی اور تحریک کیلئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ آغاز قیام پاکستان میں حضرت قائداعظمؒ کے حکم پر جنگ کشمیر میں حصہ لیا۔ آزاد کشمیر ریڈیو کی بنیاد رکھی۔ جنگ کشمیر میں زخمی ہو گئے اور اس طرح میدان جنگ کو اپنے خون سے خود بھی لالہ زار بنایا اور قدیم لشکر اسلام کی یاد تازہ کر دی۔ اسی طرح 1965ء کی جنگ میں محاذ جنگ پر اگلے مورچوں پر جا کر مجاہدین کا لہو گرماتے رہے۔ جنگوں میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ خود حصہ لینے کے عمل نے انہیں دیگر تمام شعراء سے ایک منفرد حیثیت عطا کر دی۔ حفیظ کا ایک اور فقید المثال کارنامہ تاریخ اسلام کو منظم کرنے کا ہے جو شاہنامہ اسلام کے نام سے مشہور ہے اور آج بھی مذہبی محفلوں میں بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے۔ حفیظ کی ایک اور وجہ عظمت یہ ہے کہ وہ پاکستان کے قومی ترانے کے مصنف ہیں۔ سینکڑوں ترانوں میں حفیظ کے لکھے ہوئے ترانے کو قومی ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ قومی ترانہ پاکستان اور شاہنامہ اسلام کی تخلیق نے حفیظ کو ایک ایسے مقام کا حامل بنا دیا جو کسی اور کوحاصل نہیں۔
حفیظ ایک بہت بڑی نظریاتی قوت بھی تھے جو مرتے دم تک پاکستان دشمنوں سے برسر پیکار رہے۔ ملک و ملت کی بے پناہ خدمت کرنے والی اس شخصیت کی اس کے شایان شان پذیرائی پاکستانیوں اور حکومت پاکستان کا فرض ہے۔ پاکستان کا قومی ترانہ جگہ جگہ پڑھا اور لکھا جاتا ہے لیکن مصنف کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔ انکے نام اور کلام سے نئی نسل کو روشناس کرانے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں فراموش کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں مسلم لیگ کی حکومت سے یہ استدعا کرنا بیجا نہ ہو گا کہ اگر خدمت قوم ہی معیار پذیرائی ہے تو حفیظ کو ان کا وہ مقام دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ ان کا دن سرکاری طور پر منایا جائے۔ ان کے کلام کو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر نصاب میں زیادہ سے زیادہ جگہ دی جائے۔ ملک کی کسی بڑی شاہراہ اور کسی نمایاں ٹرین کو بھی حفیظ کے نام سے منسوب کیاجائے۔

ای پیپر دی نیشن