میں کچھ دنوں کے لئے امریکہ آیا ہوں نیو یارک‘ واشنگٹن‘ ڈلس سے ہوتا ہوا ایک ایسے شہر میں پہنچا ہوں جو کئی اعتبار سے منفرد ہے لاہور اور لاس اینجلس میں سوائے لام کے کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ دونوں کے مزاج بہت سست اور قد کاٹھ میں بعد المشرقین ہے۔ یہاں جب لہلائے شب اپنی مشکبار زلفیں کھولتی ہے تو لاہور میں سورج نصف انہار پر ہوتا ہے اور لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ تمازب آفتاب کے تھپیڑے کھا رہے ہوتے ہیں اور جب لاس اینجلس میں سورج کی سنہری کرنیں جسم کو ہلکی ہلکی ٹکور کرتی ہیں تو وہاں شب گزیدہ تو لو کی دعا مانگتے ہیں جوش نے آج سے کئی برس قبل جس دور کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا …؎
ابرکرم نہ بادصبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
ہر حکمران حسب توفیق اس میں اضافہ کرتا رہا ہے اور اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ غربت‘ بے روزگاری اور بھوک کے مارے ہوئے لوگوں میں بدعا دینے کی بھی سکت نہیں رہی۔ کیلے فورنیا کی ریاست رقبے کے اعتبار سے پاکستان جتنی ہے۔ اس کا ساحل بارہ سو میل پر محیط ہے اس کا شمار امریکہ کی امیر ترین ریاستوں میں ہوتا ہے اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بجٹ پاکستان کے سالانہ بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ازخود امریکہ میں شامل نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ نے بزور شمشیر میکسیکو سے چھینا تھا۔ جو لوگ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی مداخلت پر حیران ہوتے ہیں انہیں اس کی تاریخ پڑھنی چاہئیے طاقت کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ جو اخلاقی ضابطوں کی پروا نہیں کرتی۔ عرب اندلس کے ساحلوں تک کیسے پہنچے؟ برطانیہ ایک ایسی ایمپائر کھڑی کرنے میں کیونکر کامیاب ہوا جس پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا فرنچ، جرمن‘ رومن‘ یونان کے حاکموں نے دنیا کو تاراج کر ڈالا ان گنت بستیاں برباد کر ڈالیں بے گناہ لوگوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح مارا ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ شیکپیئر نے کہا تھا ’’Opportunity Thoo Falt is Great‘‘ میں کسی کو موقعہ ملا تو اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ آج جب تاریخ سکندر کو مقدونی کو سکندر اعظم کہتی ہے تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے ایک سیاح کے لئے لاس اینجلس میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے ڈزنی لینڈ‘ یونیورسل سٹوڈیو‘ لانگ بیچ‘ سانتا مانیکا‘ بیورے ہلز‘ وینچورا بلیوارڈ وغیرہ شہر شیطان کی آنت کی طرح پھیلا ہوا ہے لمبائی اور چوڑائی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے ایک درجن کے قریب تو اس کے ائیرپورٹ ہیں دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا پڑھا لکھا شخص ہو جس نے ڈزنی لینڈ کا نام نہ سنا ہو یہ محض ایک تفریح گاہ نہیں بلکہ انداز فکر بھی ہے اس کے ذریعے 1901ء میں پیدا ہونے والا ایک غریب بڑھئی کا بیٹا والٹ ڈزنی دنیا کو پیغام دینا چاہتا تھا کہ مایوسی گناہ ہے غم والدم ہمیشہ نہیں رہتے انسان کو مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے۔ اس پارک کو 1955ء میں پبلک کے لئے کھول دیا گیا ڈزنی چاہتا تھا کہ ایسا تفریحی پارک بنایا جائے جہاں جا کر لوگ اپنے تفکرات سے آزاد ہو جائیں وہ انسان کی نا آسودہ خواہشوں کو وقتی طور پر ہی سہی ایک آسودگی بخشنا چاہتا تھا۔ زندگی کا روشن پہلو دکھانا چاہتا تھا۔ پارک میں جا کر پانچ سالہ بچہ اور ستر سالہ بوڑھے ایک جیسی مسرت محسوس کرتے ہیں یونیورسل سٹوڈیو ہی دراصل ہال روڈ ہے۔ یہ فلموں کی دنیا کا سب سے بڑا مرکز ہے انگریزی زبان کی تمام مشہور فلمیں یہیں بنیں۔ Ten Commande Ments کو بھی اسی جگہ فلمایا گیا حضرت موسی اور فرعون کا قصہ ’’مقام عبرت‘‘ انسان بھی عجب جانور ہے تاریخ ساز ہے لیکن تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا ذرا سا اقتدار تھوڑے سے اختیارات معمولی سی طاقت بھی مل جائے تو اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے قطرہ حقیر کی طبعیت کا موج اور جولانیاںدیکھنے والی ہوتی ہیں دھرتی پر یوں اکڑ اکڑ کر چلنا ایسے جیسے یہ اس کی ازلی میراث ہو ایسے خود سر انسان گردشی حالات کا ایک جھٹکا برداشت نہیں کر پاتے اپنے آپ کو خدا سمجھنے والا فرعون بچوں کی طرح گڑ گڑایا تھا پانی کی بے رحم موجوں نے اس کی ساری فرعونیت نکال دی تھی۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ فلم بطور خاص دکھانی چاہئیے میں نے یہ تمام مقامات 1984ء میں ہی دیکھ لئے تھے جب یہاں پر اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ امریکہ یاترا کی ہے نتیجتاً امریکہ پر ایک کتاب ’’جزیرے جمال کے‘‘ لکھی۔ اہل وطن کے لئے بھی وہ کھیل یادگار تھے۔ پاکستان نے ہاکی کے میدان میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا آخری مقابلہ ایس ایل اے کالج میں جرمنی کے خلاف تھا سخت مقابلے کے بعد ہماری ٹیم نے جرمنوں کو چاروں شانے چت کر دیا میدان میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی جمع تھے جب کھیل ختم ہوا تو لوگوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ نعرہ زن لوگ ہنس رہے تھے۔ رو رہے تھے خوشی سے بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے تھے ایک عجیب منظر تھا کوئی بھی سندھی نہیں تھا۔ کوئی پنجابی، بلوچ اور پٹھان نہیں تھا سب پاکستانی تھے ایک ہی نعرہ ورد زبان تھا اللہ اکبر پاکستان زندہ باد کاش وہی جذبہ پھر زندہ ہو جائے۔
اس دفعہ جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ سابقہ امریکی صدر نکسن کی لائبریری تھی رچرڈ نکسن ایک معمولی آدمی سے صدارت کے عہدے تک جا پہنچا وہ یقیناً ایک بہت بڑا سٹیٹس ہیں مدبر لکھاری بردبار اور بیدار مغز حکمران تھا ایسے ایک چھوٹی سی غلطی کی بہت بڑی سزا بھگتنا پڑی۔ ایک ایسا جھوٹ جسے دروغ مصلحت آمیز کہا جا سکتا ہے ایک ہم ہیں جہاں ہمارے حکمران عادتاً جھوٹ بولتے ہیں جو شخص جتنا بڑا گذب بیان ہوا اتنا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے لائبریری میں وہ بیش قیمت نوادرات پڑے تھے جو دنیا کے بادشاہوں نے اسے تحفتاً دیئے تھے۔ سعودی بادشاہ کی طرف سے ہیروں کے ہار عرب حکمرانوں کی طرف سے مرصع خالص سونے کی تلواریں ہیرے جڑے ہوئے ظروف ہاتھی دانتوں پر منقش مینا کاری گھڑیاں وغیرہ یہ سب کچھ ریاست کی ملکیت سے اس نے کچھ بھی اپنے پاس نہ رکھا ہمارے حاکموں کو اتنی توفیق بھی نہیں کہ بتا سکیں کہ تیس کروڑ روپے کی گھڑی کہاں سے آئی ہے۔