یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب ہے درکار

یہ عجب اتفاق یا بد اتفاقی ہے کہ جب سے فوج نے دہشت گردوں کے خلاف صفایا ساز دھماکہ شروع کیا ہے تب سے سیاسی محاذ پر بھی بے وقت دھماکوں پر دھماکے دیکھنے میں آ رہے ہیں، تحریک انصاف نے دس لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد میں تاریخی دھماکے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری خود تراشیدہ انقلابی منصوبے کو صوبہ صوبہ پھیلا کر ماورائے انتخابات نظام حکومت قائم کرنے کے نعرہ متانہ پر کینیڈا سے پاکستان آ چکے ہیں۔ لاہور میں عوامی تحریک اور پولیس تصادم میں تحریکی کارکنوں کے قتل کا دھماکہ ایک زلزلے کی صورت ابھی تھر تھر ا رہا ہے۔ اتنے دھماکوں کی موجودگی میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک نیا دھماکہ کر دیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ بھوربن میں پی پی اور نون لیگ کے معاہدہ میں یہ نکتہ شامل تھا کہ پرویز مشرف اس شرط پر مستعفی ہوں گے کہ انہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ گیلانی جی کے اس گیان انگیز بیان نے پیپلز پارٹی میں ایک کھلبلی پیدا کر دی۔ پی پی کے رہنمائوں نے کھلبلاہٹ میں متضاد بیانات دے کر ثابت کر دیا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اطلاع دی ہے کہ مشرف سے استعفیٰ کے بدلے ان پر فوجداری مقدمہ نہ بنانے پر اتفاق ہوا تھا، پیپلز پارٹی نون لیگ ، اے این پی ، ایم کیو ایم اور جے یو آئی اس اتفاق کا حصہ تھیں، سینیٹر جہانگیر بدر نے کہا ہے کہ گیلانی کائرہ بیانات غلط بیانی پر مبنی ہیں ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ رضا ربانی اور سابق صدر زرداری کے معتمد خاص فرحت اللہ بابر نے بھی زرداری مشرف سمجھوتے یا اتفاق کی تردید کی ہے اور انکشاف کیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سینئر لیڈروں نے مشرف کا مواخذہ کرنے کے لئے بارہ نکاتی دستاویز تیار کر لی تھی جو میرے پاس آج بھی محفوظ ہے، زرداری نے مشرف کو پیغام بھیجا کہ تم چلے جائو ورنہ مواخذہ ہو گا۔مواخذاتی خوف سے مشرف نے 18اگست 2008ء کو صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور ملک سے باہر چلے گئے۔ نون لیگ کے وزیر احسن اقبال کا موقف ہے کہ نون لیگ مشرف کی با عزت رخصتی کے کسی معاہدہ میں شریک نہیں تھی۔ مشرف کے خلاف مواخذاتی دستاویز تیار ہوئی تھی۔ نوک پلک درست کرنے کے لئے اسے وزارت قانون کے سپرد کیا گیا تھا۔ کچھ دن بعد پتہ چلا کہ دستاویز کہیں غائب ہو گئی ہے۔ جس کے بعد نواز شریف آصف زرداری کے ایف ایٹ والے گھر گئے تو زرداری نے میاں صاحب کو مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کی موجودگی میں بتایا کہ ہم مشرف کو اینڈ یمنٹی دینے کا وعدہ کر چکے ہیں جس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ ہم نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ نجم سیٹھی کی سراغ دان چڑیا بتاتی ہے کہ مذکورہ معاہدہ کے حوالے سے نواز شریف کو آن بورڈ نہیں لیا گیا تھا، یہ فیصلہ پی پی ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی کا تھا، 15اگست 2008کے اخبارات میں نوازشریف کا بیان موجود ہے کہ مشرف کو باہر جانے کا محفوظ راستہ نہیں دینا چاہئے، 19اگست کو خبر شائع ہوئی کہ زرداری مشرف کے لئے آئینی استثنیٰ چاہتے ہیں لیکن نواز شریف ان سے اتفاق نہیں کر رہے۔
کون کیا کہہ رہا تھا کیا سنئے
کون کیا چاہتا تھا، کیا کہیے
سونے پر سہاگہ یہ کہ یوسف رضا گیلانی کے بیان کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹر سن کے دو سفارتی مراسلات بھی منظر عام پر آ گئے ہیں، جن میں مئی 2008ء کے دوران امریکی نمائندوں ایڈمرل شف اور ایلی سن شوارٹرز کی زرداری سے ملاقات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ زرداری نے امریکہ برطانیہ اور جنرل کیانی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مشرف کو محفوظ راستہ دیا جائے گا۔زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا مئوقف تھا کہ وہ مشرف کو معافی دینے کے پابند نہیں تا ہم ایسا صدارتی انتخابات کے بعد ہی ہو گا۔ زرداری نے خود بھی امریکی سفیر سے کہا تھا کہ وہ مشرف کو معافی دینے کے وعدے پر قائم ہیں۔ 21اگست 2008ء کو وزیر اعظم گیلانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک نے امریکی سفیر سے ملاقات میں یقین دہانی کروائی کہ وہ مشرف کو معافی دینے پر تیار نہیں۔ مشرف سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا، امریکی سفیر نے واضح کیا کہ مشرف معافی کے وعدہ کے بغیر مستعفی نہیں ہونگے۔ امریکی سفیر نے بیان سے صرف مشرف کے حق میں امریکی مداخلت ثابت ہو رہی ہے بلکہ صدارتی تخت پر قبضہ کے لئے زرداری صاحب کی پس پردہ کاوشات بھی بے پردہ ہو رہی ہیں۔
راز کھول دیتی ہیں یاروں کی یاریاں
بے پردہ یوں بھی ہوتی نہیں کچھ پردہ داریاں
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’جو راز‘ ہائے درون 2008ء سے زرداری گیلانی کائرہ، جہانگیر بدر ، فرحت اللہ بابر ، مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کے علم میں تھے ان کا انکشاف گیلانی جی نے چھ سال بعد عین اس وقت کیوں کیا جب ایک طرف عمرانیہ اور دوسری طرف قادریہ مارچ کے میدان گرم ہیں، تیسری طرف پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جہاد میں مصروف ہے، ان حالات میں یہ نیا سیاسی ہنگامہ کسی نئی بین الاقوامی سازش کا آغاز تو نہیں؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہے درکار

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...