شوکت چودھری پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان میں مزدور تحریک کا ایک بڑا نام ہیں۔ گارڈن کالج راولپنڈی کے تعلیم یافتہ اور پاکستان میں طلباء تحریکوں کے بانیوں میں سے ہونے کے باعث اس عمر میں اور آج کل کی سخت گرمی میں کبھی کوئٹہ‘ کبھی پشاور‘ کراچی‘ کبھی لاہور‘ اسلام آباد‘ فیصل آباد‘ ملتان میں سٹڈی سرکلوں کو متحرک کرنے کیلئے اپنی بیگم کے ہمراہ رواں دواں رہتے ہیں۔ اس ہفتے آزاد ویلفیئر فائونڈیشن رجسٹرڈ کے کرتادھرتا محمد اقبال ظفر کے ہاں سٹڈی سرکل میں انہوں نے اس وقت حاضرین کو چونکا دیا جب اعلان کیا کہ اس بار حالات حاضرہ خصوصاً عالمی سامراج کی سازشوں کے حوالے سے لندن سے ان کے تحریکی استاد علی جعفر زیدی اور دبئی سے دانشور شیراز بھٹی اظہارخیال اور سوال جواب کی نشست کو رونق بخشیں گے‘ سید علی جعفر زیدی کالج دور میں ان کے سینئر طالبعلم تھے اور دوسری تحریکوں کے علاوہ ایوب خان کے خلاف عوامی شعور کو بیدار کرنے والے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہیں۔ سینئر کالم نگار اثرچوہان نے بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے اور اپنے کالموں میں ان کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ علی جعفر زیدی کے ساتھ دبئی سے آئے ہوئے دانشور شیرازبھٹی تھے جو بجائے خود شعلہ جوالہ دکھائی دے رہے تھے۔ ایسی گرمی اور لوڈشیڈنگ میں جب لائٹ آنے پر بھی اے سی کاچلنا ممکن نہ تھا‘ دو گھنٹے کے طویل سٹڈی سرکل مباحثہ میں گفتگوکرنے والے اور سننے والے ہر دو پسینہ پسینہ ہوتے وہے مگر سب ہمہ تن گوش‘ باتیں ہی ایسی تھیں‘ جب انیب ظفر فائونڈیشن کے صدر کی حیثیت سے نوجوانوں کی خون کے عطیہ جات دینے‘ دینی تعلیمی‘ سپورٹس‘ موسیقی سمیت مختلف سرگرمیوں کا تعارفی خاکہ بیان کر چکے تو اصل موصول پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ جغرافیہ میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کرنے والے علی جعفر زیدی نے تاریخی تناظر میں آج کا عالمی منظرنامہ پیش کیا اور کہا کہ اس وقت دنیا ظالم اور مظلوم میں تقسیم ہو چکی ہے۔ امریکہ ظالموںکی قیادت کر رہا ہے۔ گزشتہ ایک صدی کا منظرنامہ سامنے رکھا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کیلئے واضح منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ امریکہ نے جہاں جانا ہوتا ہے‘نیٹو‘ عالمی بینک‘ ملٹی نیشنل کمپنیاںیورپی برادری سب اسی کے ساتھ قطار بنا کر کھڑے نظر آتے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں حملوں کا ایک جھوٹا جواز بنا دیا جاتا ہے۔ اپنے مدمقابل روس کو توڑنا تھا تو اپنی طاقت کے ساتھ اسلامی دنیا کے مذہبی جذبات کا استعمال بھی کیا۔ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ روس میں کوئی مسجد نہیں رہی۔ آج روس کو اس کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے تو وہ علماء جو اس وقت روس میں مساجد کے خاتمے کی بات کرتے تھے آجکل فیس بک پر ماسکو کی خوبصورت مساجد کی تصاویر دکھاتے ہیں۔ امریکہ میں بش نے الیکشن جیتنا تھا تو اسامہ بن لادن کو ایک خطرناک دشمن کے طورپر ابھارا گیا۔ گویا روس کی صورت میں دشمن نہ رہا تو ایک فرضی دشمن تراشا گیا۔
القاعدہ کا ہوا کھڑا کیا گیا۔ امریکی اور یورپی چینلوں پر اسامہ کی ویڈیوز دکھا کر امریکیوں سے ووٹ مانگے گئے اور بش نے الیکشن جیت لیا۔ امریکی سامراج نے اپنے ہاں کی اکثریتی مذہبی آبادی کو مطمئن کرنے کیلئے خطرناک سازشیں بھی کیں۔ پاکستان میں اس کے ایجنٹوں نے پہلے اہم پاکستانیوں کو اغوا کیا‘ ان کے سر قلم کرکے فٹبال کی طرح ویڈیو بنائیں اور یورپی مغربی چیلنوں پر دکھا کر یہ تاثر ابھارا گیا کہ مغربی دنیا کا مذہب اسلام سے زیادہ اچھا ہے۔ سید علی جعفر زیدی نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی نیت میں ایک خطرناک پہلو کی نشاندہی بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سازشی اکٹھے ہونگے تو قوم کو بھی متحد ہونا چاہئے ۔ مگر ہمارے ہاں تو لسانی‘ علاقائی‘ مذہبی اور اب سیاسی طورپر قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ پھر قابل توجہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں سماجی مجرم‘ وائٹ کالر کریمینل اور جرائم پیشہ افراد سیاسی جماعتوں کو پناہ گاہ سمجھتے ہیں اور ان کو پناہ مل بھی جاتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے کامیاب نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے‘ دوسرا سبب یہ ہے کہ پاکستانی عوام ایک مدت سے ظالموں کے حلقے بگوش طبقے سے نجات دہندہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ شیراز بھٹی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ اور پہلو بیان کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے سوئٹزرلینڈ پاکستان سے دولت سمیٹ کر لے جانے والوں کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اب پاکستان کا مقتدر طبقہ پاکستانی دولت کو مغربی ممالک کیساتھ ساتھ عرب دنیا خاص طورپر دبئی میں منتقل کر رہا ہے۔ اگر ہمارے ہاں کے ٹی وی چینل دبئی میں بڑی بڑی پراپرٹی‘ پلازے اور ٹاور کے مالکان کی موقع پر ریکارڈنگ کریں تو پاکستانی عوام کی آنکھیں کھل کی کی کھلی رہ جائیں گی۔ ان کی باتیں معنی خیز تھیں کہ پاکستان کے عوام حکمرانوں کے قرضوںکے باعث مقروض ہو رہے ہیں اور پاکستان کی اپنی دولت دبئی کے چالیس چالیس فلور رکھنے والی عمارتوں کی صورت باہر منتقل ہوتی جا رہی ہیں۔ پھر پاکستان میں وراثتی سیاست نے مستقبل کو دھندلا دیا ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ جمہوری تسلسل اچھی بات ہے مگر سیاست کی باگ ڈور نصف صدی تک نئے لوگوں کے ہاتھوں میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔