17 رمضان 2 ہجری مطابق 13 مارچ 624ء کی صبح بدر کے میدان میں دو صفیں ایک دوسرے کے سامنے نبردآزما تھیں اور دنیا میں اس حقیقت کبریٰ کا اعلان کر رہی تھیں کہ انسانی تقسیم (قومیت) کا صحیح معیار کیا ہے؟ حضرت نوحؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک انبیائے کرامؑ کے کوائف و احوال پر ایک نظر ڈالئے‘ آپ کو نظر آجائے گا کہ کس طرح کفر و ایمان نے باپ اور بیٹے‘ بھائی اور بھائی‘ میاں اور بیوی‘ خویش و اقارب میں ایک بدیہی تفریق کرکے رکھ دی تھی۔ وہ واقعات فرداً فرداً تاریخ کے صفحات پر رونما ہوئے‘ لیکن آج وہ تمام کے تمام ان دو صفوں میں سمٹ کر سامنے آگئے۔ یہ دو صفیں جو ایک دوسرے کے مقابل شمشیر بکف کھڑی تھیں‘ کن افراد پر مشتمل تھیں؟ ان پر جن کا ملک ایک تھا‘ زبان ایک تھی‘ رنگ و نسل ایک تھا‘ حسب و نسب ایک تھا‘ لیکن اس کے باوجود ایک وجہ افتراق تھی جس نے ان تمام وجوہ جامعیت کو منسوخ کرکے انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کر دیا تھا اور اس طرح دنیاکو بتلا دیا تھا کہ قرآن کی رو سے قوموں کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے۔ وہ وجہ تفریق و علت تقسیم تھی ایمان!
ایک طرف حضرت ابوبکرؓ تھے تو دوسری طرف مقابلہ میں ان کا بیٹا۔ ادھر حضرت حذیفہ ؓ تھے توصفِ غنیم میں ان کا باپ عتبہ‘ اِدھر حضرت عمرؓ تھے تو اُدھر آپ کا ماموں جس کے خون سے آپ کی تلوار رنگین تھی۔
اُدھر حضرت علیؓ تھے تو مخالف صف میں ان کے بھائی عقیل۔ یہ تھی وہ حقیقی تقسیم جو رنگ‘ وطن‘ زبان اور نسل کے غیرفطری حدود سے ماورا تھی۔
یہ جنگ بڑی اساسی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لئے قرآن کریم نے شرح و بسط سے اس کا تذکرہ کیا ہے۔ پوری کی پوری سورت انفال گویا اسی کے کوائف پر مشتمل ہے۔ ایک طرف طاغوتی قوتیں اپنی پوری شوکت و شدت کے ساتھ آمادہ ٔ پیکار ہیں۔ دوسری طرف خداپرستوں کی یہ مختصر سی جماعت جو تین سو تیرہ نفوس پر مشتمل تھی‘ حق و صداقت کی مدافعت و حفاظت کیلئے سربکف سامنے کھڑی ہے۔
فوجیں آمنے سامنے ہیں‘ ادھر صحابہ کبارؓ کی وہ جماعت ہے جس کا ایمان ساری دنیا کے مومنین کیلئے نمونہ ہے‘ لیکن انہیں بھی تاکید کی جاتی ہے کہ یاد رکھو! جو باطل کے مقابلہ میں پیٹھ دکھائے گا‘ سیدھا تباہی و بربادی کے جہنم میں چلا جائے گا۔دونوں طرف سے صف آرائی شروع ہوئی۔ آنحضرتؐ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا۔ اشارہ سے صفوں کو برابر کیا پھر جہاد پر وعظ فرمایا۔ اس کے بعد درگاہ قاضی الحاجات میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ خشوع و خضوع کی حالت میں سجدہ میں گر گئے اور کہا اے اللہ! اگر آج تیرے یہ چند عبادت گزار مٹ گئے تو پھر کبھی دنیا میں تیری پرستش نہ کی جائے گی۔اسی حالت میں تھے کہ فرشتہ نے آکر فتح کی بشارت دی۔ آپؐ نے سر اٹھایا اور مسلمانوں کو یہ مژدہ سنایا بدر کی شکست نے کفار کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت بٹھا دی۔ اسی طرح باطل کا وہ کروفر جو اپنی سرکشی میں کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا‘ حق کے ساتھ پہلی ہی ٹکر میں بُری طرح مجروح ہوا۔
حضرت عائشہؓ کی رحلت 17 رمضان 58 ہجری میں ہوئی۔ بڑے بڑے صحابیوں نے کہا ہے کہ دین کا علم حضرت عائشہؓ سے زیادہ کسی کو نہ تھا کیونکہ ایک تو وہ خود بہت سمجھدار اور اسلام کی مصلحتوں کو جاننے والی تھیں‘ دوسرے ان کو رسول پاکؐ کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ آپ کو بے شمار حدیثیں یاد تھیں۔ اگرچہ غزوہ بدر میں کسی عورت کی شرکت کا ذکر نہیں‘ لیکن حضرت عائشہؓ اس میں شریک تھیں اور نبی کریمؐ کے ساتھ تھیں۔ حضرت عائشہؓ اسلام کے آغاز اور اس کے نشوونما کے ایک ایک مرحلے سے نہ صرف واقف تھیں بلکہ قدم قدم پر جو مشکلات پیش آئیں‘ ان میں عملاً شریک رہی ہیں۔ گھریلو معاملات میں‘ بالخصوص زنانہ مسائل سے متعلق حضرت ابو ہریرہؓ کے بعض فتاویٰ میں حضرت عائشہؓ نے اصلاح فرمائی ہے۔ ان میں حضرت ابو ہریرہؓ نے قیاس سے کام لیا تھا مگر چونکہ حضرت عائشہؓ ان واقعات کی عینی شاہد تھیں اور نبی کریمؐ سے انہوں نے ان مسائل کو خود دریافت فرمایا تھا‘ اس لئے ان کا بیان اس باب میں سند ہے۔
شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر بعض روایات کے مطابق انیس برس اور بعض کے مطابق سترہ برس تھی۔ پندرہ‘ سولہ برس سے کم کسی صورت میں نہ تھی۔ اس لئے وہ روایات کہ شادی کے وقت آپؓ کی عمر نو برس تھی‘ قابل قبول قرار نہیں پا سکتی۔ رسول کریمؐ نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیں۔ ان میں سے کسی کی شادی بھی صغر سنی میں نہیں کی۔ سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کی شادی کی۔ اس وقت ان کی عمر کم از کم اکیس سال کی تھی۔
غزوہ بدر اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رحلت
Jul 16, 2014