صبر آزما بلکہ ”صبر شگاف“ لوڈشیڈنگ کے لئے لوڈشیڈنگ کے ”دفاعی وزیر“ خواجہ آصف نے عوام سے معافی مانگی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے چھوٹے وزیر عابد شیر علی ناراض لگ رہے تھے کہ اس میں معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ احتجاج کرنے والوں کے لئے ہماری پولیس کے شیر جوان کافی ہیں۔ اب تو پولیس کو ماڈل ٹاﺅن والی واردات کرنے کا قانونی اختیار بھی مل گیا ہے۔ ان مظاہروں کا الزام ڈاکٹر قادری اور عمران خان پر آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ساتھ میں بیورو کریٹ نرگس سیٹھی بھی بیٹھی تھیں۔ ”خواجے دا گواہ ڈڈو“ مجھے ڈڈو کی مونث نہیں آتی۔ نرگس کی افسرانہ نرگسیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیورو کریسی میں مذکر مونث کی تفریق نہیں ہوتی۔ ہمیں تو ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ نرگس سیٹھی نجم سیٹھی کی کیا لگتی ہیں۔ ان کا موازنہ بھی نجم سیٹھی کے ساتھ کرنا زیادتی ہے۔ مگر جو زیادتی لوگوں کے ساتھ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کی جا رہی ہے وہ صرف معافی مانگنے سے کم ہو جائے گی؟ بجلی نہیں ہے تو پانی بھی نہیں ہے۔
سیاست اور حکومت کے لوگ معافی مانگنے کے لئے نہیں ہوتے۔ کچھ کرکے دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ریلیف دینے کے لئے آتے ہیں۔ تکلیف دینے کے لئے نہیں آتے۔ آسمان کی طرف دیکھنے والوں کے دکھ دور کرنے کے لئے زمین پر حکمران اللہ کے فرماں دار نہیں بنتے تو ان کے انجام سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خواجہ آصف نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بارش کی دعا کریں ورنہ لوشیڈنگ تو بڑھے گی لوگ تو دعائیں مانگ مانگ کے تھک گئے ہیں۔ دعا کے ساتھ دوا بھی ضروری ہے۔ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہیں آتا۔ لوگوں نے تو خیال کیا کہ حکمران بدل لئے اب وہ اور کیا کریں۔ اب پھر وہ حکمران بدلیں مگر اس طرح بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ نہ دعائیں قبول ہوتی ہیں نہ بددعائیں قبول ہوتی ہیں۔ خواجہ صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کل لوگ کون سی بددعائیں کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دعاﺅں سے پہلے بددعائیں قبول ہوں گی۔ یہ ڈر نہ ہوتا تو خواجہ صاحب کبھی معافی نہ مانگتے۔ معافی مانگنا حکمرانوں اور سیاست دانوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ جو کرنے والا کام ہے۔ وہ کر نہیں سکتے اور کرنا نہیں چاہتے۔
بات معافی کی نہیں ہے تلافی کی ہے۔ ہمارے ملک میں کس حکومت نے اور کس وزیراعظم اور وزیر شذیر نے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کوشش کی ہے۔ ان کی مشکلات کم کرنے کے لئے کوئی کام کیا ہے۔ یہ لوگ صرف حکومت کرنے کے لئے آتے ہیں۔ دولت بنانے کی بات بھی حکومت کرنے میں شامل ہے۔ کرپشن اور نااہلی لازم و ملزوم ہیں۔ ایک وزیر کے منہ سے یہ بات عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔ دعائیں تو کی جاتی ہیں اس کے لئے خواجہ صاحب کے فرمان کی ضرورت نہیں ہے۔ دعائیں تو حکمران بھی مانگتے ہیں۔ ہر افتتاح کے بعد بھی دعا ایک رسم بن گئی ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ دعاﺅں میں تاثیر کیوں نہیں ہے؟
کشمیر کی آزادی کے لئے کتنی دعائیں مانگی گئی ہیں مگر حکمران اب کشمیر کا نام لینا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ بزدل آدمی ظالم ہوتا ہے۔ بزدلوں کی دعائیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ وزیر شذیر حکمران اور افسران اپنے لئے کبھی دعائیں نہیں مانگتے۔ وہ حکومت حاصل کرنے کے لئے جائز اور ناجائز کوششیں کرتے ہیں۔ میں دعا کی طاقت پر ایمان رکھتا ہوں مگر....
ہے جرم ضیعفی کی سزا مرگ مفاجات
ایک آدمی نے اپنے اونٹ کو آوارہ چھوڑ دیا اور پھر اس کے گم ہونے پر دعائیں مانگنے لگ گیا۔ رسول کریم نے فرمایا کہ پہلے اونٹ کے پاﺅں باندھو اور پھر اللہ سے توکل کرو اور دعا مانگو۔ جہاں تک مسائل کے حل کے لئے دعا کا تعلق ہے تو حکمران کا رول اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اللہ سے دعا کرتا ہے اور اپنے کسی مسئلے کو بیان کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ سے میری شکایت کر رہا ہے۔ اس طرح تو اللہ کے دربار میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف شکایتوں کے انبار لگ گئے ہوں گے۔
امیر المومنین حضرت مولاعلیؑ کے اس جملے کو بار بار دہرایا جا رہا ہے کہ کوئی حکومت کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی آج لوگوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ظلم ہی ظلم کا راج ہے۔ آج ظالم اور حاکم ایک ہو چکے ہیں۔ آج کے حکمران انسانوں کو اللہ کے حوالے کر رہے ہیں تو پھر ان کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ وہ حکمرانوں کا حکمران ہے تو پھر یہ حکمران درمیان میں کیوں آ گئے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر بادشاہت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ حکومت خاندان کے چند بندوں اور اپنے پسندیدہ چند لوگوں پر مشتمل نہیں ہوتی۔ جمہوریت کے نام پر اپنی حکومت بچانے کا نام جمہوریت نہیں ہے۔
مجھے پاکستان کے طول و عرض سے کئی فون آتے ہیں لوگ گرمی اور لوڈشیڈنگ سے بلبلا رہے ہیں۔ واہ کینٹ سے نعیم بٹ نے اور میرے اپنے ضلع میانوالی اور گاﺅں موسی خیل سے روتے پیٹتے لوگ مجھ سے بھی ناراض ہو رہے تھے میں کس سے ناراض ہوں۔ مجھے یاد ہے ہمارے لڑکپن میں موسی خیل میں بجلی آئی۔ پہلے نہ بجلی تھی نہ لوڈشیڈنگ تھی۔ کیا اچھا زمانہ تھا۔ باہر کھیتوں میں درختوں کی چھاﺅں میں ائرکنڈیشنڈ والے کمرے سے بھی زیادہ مزا آتا تھا۔ اندھیرا تھا، کالا نہ تھا۔ فطرت کی حکمرانی تھی۔ ظلم کی حکمرانی نہ تھی۔ کھمبے لگتے دیکھ کر ہم خوش ہوئے۔ آج بھی وہی کھمبے کھڑے ہیں۔
پرانی ناقص تاریں زیادہ بجلی کا لوڈ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ٹرانسفارمر خراب ہو رہے ہیں۔ اس طرح پورا سسٹم ہی فلاپ ہو جائے گا۔ موجودہ حکومت اس بات کا کریڈٹ لے رہی ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے نئے پراجیکٹ مکمل کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح بجلی بے تحاشا مہنگی ہو گی۔ پھر لوگ بجلی کی مہنگائی کے خلاف مظاہرے کریں گے مگر وہ تب کون سی بارش کے لئے دعائیں کرائیں گے۔
کالا باغ ڈیم میں کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم اور مکمل اختیارات والے قومی صدر میں اتنی ہمت نہ تھی کہ کالا باغ ڈیم بناتے۔ یہ ڈیم فطری طور پر بنا ہوا ہے اور اس کے لئے کام بھی بہت ہو سکتا ہے۔ سندھ کے قوم پرست اور ”صوبہ سرحد“ کے ”بھارت پسند“ سیاست دان صرف بڑھکیں لگاتے ہیں۔ انہوں نے بھارت سے رشوت لے رکھی ہے۔ بھارت تو کئی ڈیم بنا چکا ہے مگر ہمیں ایک کالا باغ ڈیم نہیں بنانے دیتا۔ جس پر ہماری خوشحالی، ترقی اور زندگی کا دارومدار ہے۔
صوبہ سرحد کے نگران وزیراعلی واپڈا کے سابق چیئرمین ایک اعلیٰ انجینئر شمس الملک نے پوری طرح ثابت کیا کہ کالا باغ ڈیم سے خیبر پی کے اور سندھ کو کچھ نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔
شمس الملک نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم سے دو روپے فی یونٹ کی بجلی منظور نہیں ہے اور پٹرول سے 40 روپے فی یونٹ والی بجلی قبول ہے۔ کالا باغ ڈیم کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ڈیم نہروں پر بنائے جا سکتے ہیں جس سے اپنے علاقے کو پانی اور بجلی فراہم ہو سکتی ہے۔ مگر اس طرف حکمرانوں کا دھیان ہی نہیں ہے۔ لوگ ذلیل وخوار ہو چکے ہیں۔ وہ تبدیلی لانے پر قادر نہیں ہیں مگر حکمرانوں کو بدلنے پر قادر ہیں۔
میں اپنے گاﺅں موسی خیل میں بجلی کے آنے کے زمانے کی بات کر رہا تھا۔ میرے دادا جان خان ذیلدار کے دوست مولوی مرتضی صاحب کو ہم نے مبارک باد دی کہ بجلی آ رہی ہے وہ اداس ہو گئے مجھے آج ان کے الفاظ کا مطلب سمجھ میں آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے تھے تو شرارت کرنے پر ہماری ماں جھوٹ موٹ کی بددعا دیتی۔ ماں کی بددعا بھی دعا کی طرح ہوتی ہے۔ ماں کہتی ایہہ شالا تہاڈے اتے وجلی ڈھاوے (اللہ کرے تم پر بجلی گرے) اب حکمرانوں نے ہمارے سر پر بجلی آ کھڑی کی ہے۔ اللہ رحم کرے۔ حکمران بے گناہ لوگوں پر بجلی گرا رہے ہیں۔ ایوان صدر وزیراعظم ہاﺅس وزیروں کی کالونی پارلیمنٹ ہاﺅس حکمرانوں اور افسروں کے دفاتر وغیرہ میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی تو پھر عام لوگوں کے گھروں میں کیوں ہوتی ہے؟ دیہاتوں میں زیادہ کیوں ہوتی ہے۔ زندگی برباد ہو گئی ہے۔ کاروبار تباہ ہو گئے ہیں ملک ختم ہوتا جا رہا ہے۔
کیا بڑے شہروں میں بھی دیہاتی علاقے ہیں۔ صرف لاہور میں دیکھیں تو آدھے سے زیادہ لاہور میں بجلی آتی ہی نہیں۔ مجھے عالیہ بی بی نے غالباً ہربنس پورہ یا مغل پورہ سے فون پر بتایا کہ لوڈشیڈنگ سے قیامت کا سماں ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آخر میں صرف اتنا عرض ہے کہ پاکستان میں اتنی اذیت اور ذلت کی زندگی گزارتے ہوئے بھی لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ کیا یہ صرف محکوم مظلوم محروم لوگوں کا جذبہ ہے۔ کیا حکمرانوں پر بھی اس ملک کا کوئی حق ہے؟ بے چارے تڑپتے بلکتے لوگوں کا تو یہ حال ہے۔
نہ بجلی نہ پانی دل پھر بھی ہے پاکستانی