تقسیم ہند کے وقت متحدہ پاکستان کے علاقوں میں پیدائشی اردو بولنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ پاکستان میں موجودہ پیدائشی اردو بولنے والے قیام پاکستان کے وقت یا اس سے کچھ قبل اور بعد دلی، لکھنؤ، آگرہ اور ہندوستان کے دوسرے شہروں سے ہجرت کرکے کراچی، لاہور اور متحدہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں آباد ہوئے۔ یہ اردو بولنے والے بجا طور پر ایک تہذیب کی علامت تھے، شائستگی تو اِن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، لڑائی مار کٹائی سے کوسوں دور یہ پیدائشی اردو بولنے زیادہ تر ادب اور پڑھے لکھے شعبوں میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلا دارالحکومت چونکہ کراچی قرار پایا تو اردو بولنے والوں کی زیادہ تعداد بھی کراچی میں آباد ہوگئی اوراِن میں سے رموز مملکت سے آشنا لوگ مملکت خداداد کو چلانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب اردو بولنے والی اشرافیہ نے مقامی لوگوں کو نظر انداز کرنا شروع کیاتو جوابی ردعمل میں اردو اشرافیہ سے ’’نجات‘‘ پانے کی سوچ نے جنم لیا۔ کون نہیں جانتا کہ پچاس کی دہائی میں کراچی میں پہلے مہاجر اور مقامی فسادات کیونکر ہوئے؟ اور کس طرح دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرکے اردو بولنے والوں کے ’’تسلط‘‘ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی؟ وفاقی دارالحکومت کی تبدیلی کے بعد ساٹھ کی دہائی میں اردو سپیکنگ طبقے میں ’’احساس محرومی‘‘ کی پہلی لہر نے جنم لیا۔ اِ س احساس محرومی کو ایوب خان کا مارشل لا ختم کرسکا نہ ہی سندھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ احساس مٹ سکا۔ ملازمتوں میں شہری اور دیہی کوٹہ سسٹم کے ذریعے میرٹ کا خاتمہ کیا گیا تو محرومی کا احساس مزید پروان چڑھا۔ اچھے نمبروں میں پاس ہونے والے شہری بیروزگار اور کم نمبروں کے ساتھ تعلیمی ڈگری لینے والے دیہی سندھی برسرروزگار ہونے لگے تو یہ وہ وقت تھا جب احساس محرومی اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا ، انہی حالات میں الطاف حسین کو آگے بڑھنے اور اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کا موقع ملا۔ اہل کراچی الطاف حسین کی چکنی چپڑی اور جذباتی گفتگو میں کیا پھنسے کہ اپنی منزل ہی کھوٹی کر بیٹھے۔ قلم کی جگہ ہاتھ میں کلاشنکوف آگئی اور پان کی گلوری والے پرس کی جگہ بوری بند لاشیں اردو بولنے والوں کی پہچان بن گئیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں الطاف حسین اور ان کی جماعت نے تو اردو بولنے والوں کی منزل کھوٹی کی ہی لیکن دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی ایم کیو ایم کی مجرمانہ سرپرستی کرکے دراصل اہل کراچی پر ظلم کیا اورباقی تو سب تاریخ ہے۔
اگر ایم کیو ایم واقعی ایک مکمل سیاسی جماعت ہوتی اور الطاف حسین ایک مکمل جمہوری اور محب وطن سیاستدان ہوتے تو کیا اُنہیں آپریشن ضرب عضب میں ملک دشمن عناصر کے خلاف کارروائی پر یوں سیخ پا ہونا چاہیے تھا؟ کیا الطاف حسین نے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستانی فوج اور رینجرز کو تنقید کا نشانہ بناکر انتہا ہی نہیں کردی تھی؟ جیسے ہر چیزکی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے، کراچی میں بھی حد ہوچکی!بہت ہوچکا ظلم! بہت بہہ چکا خون! اور بہت کٹ چکی گردنیںمظلوموں کی! اب وقت ہے تو باطل کے ختم ہونے کا وقت ہے اور جب ظلم کی حد ہوچکی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ اس ملک کا کھائیں بھی اور اِسی ملک کی جڑیں بھی کاٹتے رہیں! آپ اس ملک سے فائدے بھی اٹھائیں اور جب چاہیں دو قومی نظریہ بحیرہ عرب میں ڈبونے کا اعلان بھی کرڈالیں! آپ اس ملک سے اپنا تعلق بھی استوار رکھنے کے دعوے کریں اور جب چاہیں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ بھی بلند کردیں! آپ عروس البلاد کا مینڈیٹ رکھنے کے دعویدار بھی ہوں اور جب چاہیں آپ روشنیوں کے شہر کراچی کو تاریکیوں میں بھی دھکیل دیں!جب آپ اِس قدر کھلا تضاد لے کر چلیں گے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وطن کی مٹی سے محبت کرنے والے آپ کو کھلا چھوڑ دیں کہ آپ بربادی کرتے پھریں؟ اب دیکھ لیں کہ جب بالواسطہ طور پر ملک کے خلاف اور بلاواسطہ طور پر ملکی سرحدوں کے نگران اداروں کے خلاف آپ کی دشنام طرازی اور فتنہ پروری آخری حدوں کو چھونے لگی تو لوگوں کے صبر کا پیمانہ تولبریر ہونا ہی تھا، پاکستان بھر میں مختلف شہروں میں ’’قائدتحریک‘‘ کے خلاف بیسیوں فوجداری مقدمات کا درج ہونااس بات کی گواہی ہے کہ پاکستانی عوام نے الطاف حسین کی دشنام طرازی کو بالکل بھی پسند نہیں کیا۔
ان مقدمات کے مطابق ’’الطاف حسین نے اپنی تقریر میں پاکستان کی سا لمیت اور سکیورٹی اداروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی ہے اور ان کی اس تقریر کا مقصد سندھ، خصوصاً کراچی میں انتشار پیدا کرنا تھا۔ بعض جگہوں پر درج مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے اور الطاف حسین پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ دوسری جانب الطاف حسین نے ان مقدمات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرائے ہیں حالانکہ انھوں نے ملک کے خلاف نہیں بلکہ ظلم و جبر کے خلاف بات کی تھی۔الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ ’’جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر انھیں جیل بھیجا جاسکتا ہے، ان کی تقاریر پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے یا مافیاز کے ذریعے قتل کرایا جا سکتا ہے، لیکن وہ تحریک کو جاری رکھیں‘‘۔اب یہ مزاحیہ باتیں نہیں تو اور کیا ہے کہ کسی کو الطاف حسین کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے! حالانکہ اُن کے خلاف تو اصلی مقدمات کی ہی اتنی بھرمار ہے کہ بھولے سے بھی جھوٹے مقدمے کی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔
کون نہیں جانتا کہ کراچی میں بھتہ خوری، سٹریٹ کرائمز، اغواء کی وارداتوں، چوری چکاری اور زبردستی زکوٰۃ، فطرہ اور کھالیں جمع کرنے میں ایم کیو ایم کے کارکن پیش پیش نظر آتے ہیں، لیکن ایم کیو ایم ان الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے اکثر کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں اور جب سیکیورٹی ادارے اِن جرائم پیشہ عناصر کو پکڑتے ہیں تو ایم کیو ایم ملزمان کو اپنا کارکن قرار دے کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا الزام لگادیتی ہے۔الطاف حسین فوج اور سیکیورٹی اداروں کو گالیاں بھی دیتے ہیں اورجب کوئی ان کی گالیوں کا پردہ چاک کرتا ہے تو اپنی عادت کے مطابق ہمیشہ کی طرح مکر جاتے ہیں کہ ان کی باتوں کا غلط مطلب لیا گیا۔ایم کیو ایم کے قائد نے آخری تقریر میں ایک بار پھر پینترا بدلتے ہوئے کہا کہ ’’تمام تر مظالم کے باوجود میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر بھارت یا ’را‘ نے پاکستان کے خلاف کوئی منصوبہ بندی کی اور پاکستانی فوج کو بھارت سے لڑنا پڑا تو ایم کیوایم کے کارکنان، پاکستان کے دفاع کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
قارئین کرام!!کراچی کے اردو بولنے والوں کا کوئی قصور نہیں، لیکن اُن کے نام پر چار دہائیوں سے اہل کراچی کومحبوس رکھنے والوں کا مقدمہ بہت کمزور ہے! اتنا کمزور کہ اب دھمکیوں کا کسی پر کوئی اثر نہیںہوگا۔ کراچی کو ظلم کی چکی میں پیسنے والے اب جتنا مرضی چلائیں، جتنا مرضی چیخیں اور جتنا مرضی شور مچائیں، اب اُن کی سننے والا کوئی نہیں۔وہ دن گئے کہ میڈیا کو استعمال کرکے اور ’’نامعلوم افراد‘‘ کا ڈراوا دے کر کراچی کو دو منٹ میں بند کردیا جاتا تھا ! وہ زمانہ گیا کہ جب مخالفین کے دروازوں پر کراس کا سرخ نشان لگاکر اُنہیں دہشت زدہ کرکے اُن سے اپنی مرضی کا کام لیا جاتا تھا! وہ دور آخر تمام ہونے کو ہے جب ’’آدمی کے روپ میں فرعون‘‘ نے ایک بار پھر خدا ہونے کا دعویٰ کرکے انسانوں پر ظلم کی انتہا کردی، لیکن اسی طرح کے مظالم کے خلاف ساری عمر سینہ سپر رہنے اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے بابائے صحافت جناب مجید نظامیؒ نے ہمیں تو یہی سکھایا تھا کہ اگر اِس دنیا میں کوئی ظلم ہوتا ہے تو کوئی انصاف بھی ہوتا ہے!