قیام پاکستان کے لئے 14 اگست کا دن ہے مگر اس کے ساتھ 27 رمضان کی رات بھی ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ یہ ملک ہمیشہ کے لئے بنا ہے۔ یہاں عشق رسولؐ میں بے قرار اور سرشار لوگ رہتے ہیں۔ میں اسے خطۂ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔ ہمارے مرشد و محبوب مجید نظامی بھی 27 رمضان کی شب اپنے رب محمدؐ سے جا ملے۔ یہ گواہی ہے کہ پاکستان سے مجید نظامی جتنی محبت کرنے والے کم کم ہیں۔ ان کے بڑے بھائی حمید نظامی نے قائداعظم کی ہدایت کے مطابق نوائے وقت نکالا جو آج پاکستان کا ترجمان واحد قومی اخبار ہے۔ میرے دل میں دوسرے اخبارات کا احترام پوری طرح موجود ہے مگر نوائے وقت پاکستان کا اخبار تھا جب ابھی پاکستان بظاہر وجود میں نہ آیا تھا اور آج بھی یہی اخبار پاکستان کا ترجمان ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بلوچ لیڈر اکبر بگٹی بلوچستان کے پہاڑوں پر نوائے وقت کا انتظار کرتے تھے۔ کہتے تھے اس اخبار میں پاکستان بولتا ہے۔ ایسے لوگوں کو مجید نظامی نوائے وقتیا کہتے تھے اور خواتین ’’نوائے وقتن‘‘۔ حمید نظامی کے بعد مجید نظامی نے انہی کے راستے پر سفر جاری رکھا۔ ان کے بعد رمیزہ نظامی نے بھی اس راستے کو آباد رکھا ہوا ہے۔ اس راستے پر قائداعظم کے نقش قدم بھی موجود ہیں۔ یہ ایک روحانی سفر بھی ہے جہاں لوگ ایکدوسرے کے ہمسفر ہیں اور مسافر بھی ہیں جس راستے پر نقش قدم نہیں ہوتے اسے راستہ نہیں کہا جا سکتا۔
کرپٹ سیاستدانوں کے لئے میرا کالم دیکھ کر برادرم سعید آسی نے کہا ہے کہ آج تو آپ کا کالم مجید نظامی کے لئے ہونا چاہئے تھا۔ یوں بھی ہر چوتھے کالم میں آپ ان کا ذکر کرتے ہیں۔ میں شرمندہ ہوں کہ مجھے یاد بھی نہ رہا کہ تھا کہ آج تو ان کے لئے کالم میں اظہار عقیدت کرنا تھا۔
ان کے لئے چار پانچ دنوں کے لئے ایک جامع پروگرام نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام شاہد رشید اور ان کی ٹیم نے بنایا ہوا ہے۔ اس کی خبر بھی نوائے وقت میں شائع ہوئی ہے۔ آج نظامی مرحوم کے لئے فاتحہ خوانی ٹرسٹ میں کی گئی۔ ان کا ذکر نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک خصوصی اجلاس کے دوران بھی ہو گا۔ جس کی صدارت چیئرمین اور صدر محمد رفیق تارڑ کریں گے۔ یوم قیام پاکستان کے نام سے اس خصوصی اجلاس کی بنیاد مجید نظامی نے خود رکھی تھی یہ روایت ہمیشہ جاری و ساری رہے گی۔ میری تجویز یہ ہے کہ 14 اگست یوم آزادی اور 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم قیام پاکستان 27 رمضان کو قومی سطح پر سرکاری طور پر منایا جائے۔ مسلم لیگ تو وہی ہے جس کے صدر قائداعظم تھے۔ بہرحال باقی کئی مسلم لیگیں آل انڈیا مسلم لیگ کی نشانیاں تو ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کے صدارتی انتخاب میں دونوں امیدوار مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر تھے۔ مادر ملت محترہ فاطمہ جناح کونسل مسلم لیگ کی طرف سے اور صدر ایوب کنونشن مسلم لیگ کی طرف سے امیدوار تھے۔ کاش صدر ایوب مادر ملت کے حق میں دستبردار ہوئے ہوتے یا انتخاب میں دھاندلی نہ کراتے۔ دھاندلی ان کے چہیتے سیاستدانوں نے کرائی تھی۔ بابائے قوم کی بہن کو مادر ملت کا خطاب مجید نظامی نے دیا تھا جو پوری قوم نے قبول کیا۔ اب ہمیشہ کے لئے مادر ملت ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایک وزیر خرم دستگیر کے والد گوجرانوالہ کے غلام دستگیر خان نے صدر ایوب کے حق میں جلوس نکالے اور مادر ملت کے لئے ویسی توہین آمیز حرکت کی کہ میرا قلم اس کو دہرانے کی جرات نہیں رکھتا۔ غلام دستگیر خان بھی نواز شریف کے وزیر تھے۔ ان کے وزیر تو صدر ایوب کے بیٹے گوہر ایوب بھی تھے جو کراچی میں مادر ملت کے خلاف توہین آمیز جلوس کی قیادت فائرنگ کرتے ہوئے کر رہے تھے۔ پھر ان کے بیٹے اور صدر ایوب کے پوتے عمر ایوب بھی وزیر بنے تھے۔
بابائے قوم کے بعد مادر ملت سچے پاکستانیوں کے لئے آخری امید تھیں۔ وہ مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں۔ اب بھارتی وزیراعظم مودی اعتراف کرتا ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوایا ہے۔ نواز شریف روس میں جس نیازمندی کے ساتھ مودی سے ملے ہیں اس سے پاکستانیوں کو تکلیف ہوئی ہے۔ 27 رمضان کو برادرم سعید آسی نے اپنی طویل رفاقت بھری یادوں کے حوالے سے کالم لکھا ہے۔ ان کے علاوہ طیبہ ضیا، فضل اعوان، نواز خان میرانی، قیوم نظامی اور ظفر علی راجا نے بھی بہت محبت سے کالم لکھے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے مجید نظامی کی خدمت میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ اس موقع پر مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی اور ڈگری کے اعزاز کی بات ہے کہ اسے نظامی صاحب نے قبول کیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے نام کا حصہ ڈاکٹر بن گیا ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی۔ میں نے باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ہے مگر اب اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ مجھے ایک اعزاز لگتا ہے۔