بھارتی سپائی ماسٹر َامرجیت سنگھ دُلت کی گذشتہ ہفتے کی ہائی پروفائل گفتگو کے بعد گزشتہ چند دنوں سے ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کی تقاریر میں آئینی سیاسی جدوجہد سے ہٹ کر ریاستی اداروں کے خلاف دھمکیوں اوراشتعال انگیزی کی شدت میں حد درجہ اضافے کا عنصر دیکھنے میں آیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے گذشتہ روز برطانوی شہریت کے حامل الطاف حسین کی ناقابل فہم تقاریر کی مذمت کرتے ہوئے برطانوی حکومت سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اِس سے قبل بھارتی ایکسٹرنل انٹیلی جنس " را" کے سابق چیف امرجیت سنگھ دُلت جن کا تعلق بھارتی پولیس سے ہے جو 1999 میں را کی قیادت سنبھالنے سے قبل بھارتی سینٹرل انٹیلی جنس بیورو میں سپیشل ڈائریکٹر کے طور پر فائز رہے ہیں اورجنہیں بھارتی ایجنسی ،را، سے ریٹائر ہونے کے بعد سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا مشیر بنا دیا گیا تھا، آجکل بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزری بورڈ کے رکن کی حیثیت سے کشمیر سے متعلق بھارتی ریاستی امور میں فعال ہیں، نے4 جولائی 2015 کو اپنی کتاب (کشمیر : واجپائی دور ) کی تقریب رونمائی سے خطاب کیا تو بظاہر اُن کی کتاب کا مقصد نہ صرف بھارتی انتہا پسند ہندوئوں کو اطمینان دلانا تھا کہ بھارتی ایجنسی ،را، اکھنڈ بھارت کے قومی مقاصد کے حصول میں کمزور نہیں ہے بلکہ وہ اپنی کتاب کے ذریعے مغرب کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی حالات بھارت کے مکمل کنٹرول میں ہیں جہاں احتجاجی ریلیوں میں پاکستانی جھنڈے لہرائے جانے سے غلط مفہوم نہ نکالا جائے ۔
اہم بات یہی ہے کہ اَمر جیت سنگھ اپنی کتاب میںیہی پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ بھارتی انٹیلی جنس کے مقتدر سپائی ماسٹر، کشمیری مجاہدین اور طالبان جہادیوں کے علاوہ پاکستان میں متحرک علیحدگی پسند سیاسی گروپوں سے رابطے میں ہے جنہیں بھارتی ایجنسی ،را، خصوصی فنڈز فراہم کرتی ہے ۔ اِس متنازع کتاب سے اُن کا ایک مقصد کشمیری جہاد سے متعلق کشمیری رہنمائوں کی کردار کشی بھی مقصود ہے لیکن اُنہیں زیادہ شہرت ایم کیو ایم برطانیہ میں متحرک الطاف حسین کی قیادت پر رائے زنی کے حوالے سے ملی ہے ۔ اُنہوں نے الطاف حسین کی جماعت کو بھارتی را کی جانب سے فنڈز فراہم کرنے کی تردید نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر سوال کو ٹال دیا کہ الطاف حسین اب تو برطانوی سیکریٹ انٹیلی جنس سروس (MI6) کے مہمان ہیں لہذا یہ سوال اُن سے ہی کیا جائے۔ یاد رہے کہ الطاف حسین لندن منی لانڈرننگ کیس میں ضمانت پر ہیںجبکہ سوشل میڈیا میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کو بھارتی را کی جانب سے اسلحہ ، تربیت کے علاوہ مبینہ طور پر 8 لاکھ پائونڈ اسٹرلنگ سالانہ دئیے جاتے رہے ہیں ۔ اِس سے قبل لندن کے ایک سینئر صحافی اَوون بینٹ 2013 میں گارجیئن کی ایک رپورٹ میں کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں حالات کی خرابی کے باوجود الطاف حسین MI6 اور دیگر مغربی حمایت یافتہ ایجنسیوں کیلئے کافی کارآمد ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اَمر جیت سنگھ اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر الطاف حسین کو ایم آئی 6 کا مہمان ظاہر کرکے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ کیا وہ برطانوی سیکریٹ سروس سے اِس لئے نالاں ہیں کہ لندن منی لانڈرننگ کیس میں مبینہ طور پر الطاف حسین کے، را، سے تعلقات اور پائونڈ اسٹرلنگ کی فراہمی پر بھارتی ایجنسی کا آپریشن کسی حد تک ننگا ہو گیا ہے ؟ اِس صورتحال پر ہمارے غور و فکر کرنے والے اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت یقینا مسلمہ ہے ۔
قرائن یہی کہتے ہیں کہ برطانوی ایجنسی کو پاکستان میں سیاسی خلفشار پیدا کرنے یا حکومتوں کا تختہ اُلٹنے سے تو کوئی سروکار نہیں ہے لیکن پاکستان کا جوہری پروگرام اور منشیات کی غیر قانونی تجارت سے متعلقہ معلومات کا حصول برطانوی ایجنسی کے مقاصد میں شامل ہے۔ چنانچہ برطانوی سیکریٹ سروس کیلئے بیرون ممالک میں فزکس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلباء بھی اہمیت رکھتے ہیں ۔ البتہ یہ اَمر نا قابل فہم ہے کہ ایم کیو ایم اپنے دائرہ کار کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک بڑھانے میں کیوں دلچسپی لیتی رہی ہے جبکہ اِن علاقوں میں بظاہر ایم کیو ایم کا مضبوط ووٹ بنک موجود نہیں ہے ۔البتہ کراچی اور بلوچستان کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہی وہ علاقے ہیں جہاں بھارتی ایجنسی، را، تخریب کاری اور مقامی حالات کو مانیٹر کرنے کیلئے سیاسی ایجنٹوں سے کام لیتی ہے ۔
ماضی کے جھروکوں سے جھانکا جائے تو ستمبر 1965کی پاکستان بھارت جنگ کے بعد 1966 میں تاشقند معاہدے کے تحت یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن بمشکل تما م ایک برس بھی نہ گزرا تھا کہ 1967میں بھارتی خفیہ ایجنسی نے ڈھاکہ میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمیشن میں فرسٹ سیکریٹری کے طور پر تعینات انڈر کور آفیسر پی این اوجھا کے ذریعے خفیہ ذرائع سے اگر تلہ سازش کیس کی ابتدا کی جس نے آگے چل کر مکتی باہنی کی مسلح تخریب کاری اور بھارتی فوجی آپریشن کے ذریعے سقوط ڈھاکہ کی شکل اختیار کر لی ۔ یہی وتیرہ بھارت نے بالخصوص کراچی اور بلوچستان میں اندرونی خلفشار پیدا کرنے کی نیت سے اختیار کیا ہوا ہے لیکن بھارت یہ بھول جاتا ہے کہ پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت ہے اور مشرقی پاکستان کی طرح فاصلوں کی دوری اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اقبال یوسف نے ستمبر 1995 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب کراچی پیپرز میں خفیہ ذرائع کی ایک رپورٹ کے حوالے سے الطاف حسین کی کراچی میں تعینات بھارتی انڈر کور آفیسر مسٹر ایس کے بھاٹیا اور سابق انڈین قونصل جنرل آفتاب سیٹھ سے ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔الطاف حسین لندن گئے، برطانوی شہریت حاصل کی تو پھر بھارتی ہائی کمیشن کے افسران سے الطاف حسین کے تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی ۔ میڈیا ذرائع کیمطابق جولائی 2001 میں اُن کے دورۂ ہندوستان کے پس منظر میں بھی یہی تعلقات کارفرما تھے جہاں اُنہوں نے اکھنڈ بھارت کے فلسفے کی حمایت کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ دریں اثنا ، پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 63(1)(c) کے تحت کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے والا شہری پاکستانی پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے نااہل قرار دیا گیا ہے ۔ قرائن یہی کہتے ہیں کہ آئین بنانے والوں نے پاکستان کی سلامتی اور حساس ریاستی امور کے تحفظ کیلئے اِس اہم کلاز کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنایا تھا ۔ حیرت ہے کہ اِس آئینی بندش کے باوجود الطاف حسین برطانوی شہری ہونے کے ناطے پارٹی ممبرانِ پارلیمنٹ کو کیونکر کنٹرول کر رہے ہیں کیونکہ اُن کی جنبش اَبرو کے بغیر پارٹی کا کوئی پتا بھی ہل نہیں سکتا تو پاکستانی سلامتی امور کے حوالے سے اِس آئینی بندش کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا جائزہ حکومت وقت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لینا چاہیے ۔ بہرحال ، اَمر جیت سنگھ نے الطاف حسین کو برطانوی انٹیلی جنس سروس کا مہمان بنا کر ایک پنڈورہ بکس ضرور کھول دیا ہے جس کی فکر ہمارے غور و فکر کرنے والے اداروں کو بخوبی کرنی چاہیے ۔