کراچی (صباح نیوز+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس علی شاہ کی بازیابی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی رینجرز اورر آئی جی سندھ پولیس سے 21 جولائی کو جواب طلب کر لیا جبکہ سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اویس شاہ کے معاملے کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے، عدالت نے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر دو ہفتوں سے چیف جسٹس اور عدلیہ کے خلاف جاری مہم پر چیئرمین پیمرا سے 21 جولائی کو طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ چیئرمین پیمرا وضاحت کریں کہ عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جو مہم چلائی جا رہی ہے اسکے پیچھے کون ہے؟ جبکہ عدالت نے پیرول پر رہا کئے گئے افراد کے حوالے سے مکمل تفصیلات دو ہفتوں میں طلب کر لی ہیں جبکہ آئی جی سندھ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ 2016ءمیںاب تک کراچی میں قتل کے 215 مقدمات درج ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر ایس ایس پی ساﺅتھ فاروق احمدکے خلاف کارروائی کے حوالے سے چیف سیکرٹری نے رپورٹ پیش کی۔ عدالت کوبتایا گیا کہ نہ صرف چیف سیکرٹری نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کیا ہے بلکہ اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کی ہے۔ ایس ایس پی فاروق احمد کا تبادلہ کرنے کے بعد ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 15 مددگار کا جو سسٹم ہے اس کی آواز کی ریکارڈنگ کا سسٹم خراب تھا اس لئے اس پر کوئی کال ریکارڈ نہیں ہو سکی کہ کس وقت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس علی شاہ کے اغواءکی کال آئی اور کارروائی ہوئی۔ عدالت نے اس موقع پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 15 کا اتنا اہم سسٹم جس پر اطلاعات آتی ہیں اس وقت کیوں خراب تھا۔آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ چار سال ہو گئے اس نظام کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اس لیے اسے ٹھیک نہیں کیا جا سکا۔ دوران سماعت اویس شاہ کے اغواءکے حوالے سے وکلاءتنظیموں کی جانب سے درخواست دائر کی گئی اس میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے 20 روز کا وقت گزرنے کے باوجود اویس شاہ کی بازیابی میں ناکام ہوئے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اویس شاہ کے اغواءکے بعد راستے کیوں بند نہیں کئے گئے؟ اس پر پولیس حکام نے کہا کہ انہیں اویس شاہ کے اغواءکے حوالے سے دیر سے آگاہ کیا گیا۔ جیل کے قوانین کے حوالے سے جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا ہمیں بیٹھ کر پولیس کو قانون پڑھانا پڑے گا ہمارے جیل افسروں کو قانون کی خبر نہیں۔ سیکرٹری داخلہ کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری داخلہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد گئے ہیں اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ پانچ رکنی بنچ بیٹھا ہے اور سیکرٹری داخلہ جواب داخل کرانے کے لئے نہیں آئے۔ عدالت نے پیرول پر رہا کئے جانے والے ملزمان کے حوالے سے ہوم سیکرٹری کی رپورٹ مسترد کر دی۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی ہے جو دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ نوائے وقت نیوز کے مطابق عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح سندھ حکومت چل رہی ہے جسے چاہیں رہا کردیا جاتا ہے، جسے سزا ملتی ہے اسے رہا کر دیا جاتا ہے، آئی جی جیل اور دیگر افسروں کی قانون سے لا علمی پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کسی افسر کو قانون کا علم نہیں۔ عدالت نے پے رول کمیٹی کے سربراہ نیاز عباسی سے استفسار کیا کہ بتائیں کس قانون کے تحت پے رول پر ملزموں کو چھوڑا جاتا ہے؟ کیا حکومت کو سزا ختم کرنے کا بھی اختیار ہے؟ چیف سیکرٹری کی رپورٹ دیکھ کر عدالت نے قرار دیا کہ یہ تو سارا سرکاری ریکارڈ ٹیمپرڈ ہے کون جواب دے گا؟ جبکہ جیل کے ریکارڈ اور دستاویزات میں وائٹو لگنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ سزا یافتہ مجرموں کی رہائی کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 4 سزا یافتہ قیدیوں کو چھوڑا گیا تھا ان میں سے 3 کو گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، سزا یافتہ مجرم کو چھوڑ دیا جائے۔
کراچی بدامنی کیس