استنبول ۔۔۔۔ فصیل قسطنطنیہ اورحضرت ابو ایوب انصاریؓ

میں ان دنوں ایک مطالعاتی دورے کے سلسلے میں ترکی کے شہرا ستنبول میں ہوں۔براعظم یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ترکی کو تاریخ اسلام اور عالمی منظر نامے میں ابتداء ہی سے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔قدیم تاریخ میں اس خطے کو قسطنطنیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس ملک کی سیاحت کا شوق ہر دور میںہر کسی کو رہا ہے۔ استنبول میں صحابی رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓکے مزار پر حاضری کی فضیلت بھی حاصل ہوئی۔ہمارا قیام دنیا کے دو براعظموں کو ملانے والے آبنائے باسفورس کے کنارے پر واقع سلطان محمد فاتح کے دور میں تعمیر کردہ علاقے سلطان احمد میں ہے ۔ ان دونوں براعظموں کو آبنائے باسفورس پر قائم پل ملاتا ہے۔ چند منٹ کی مسافت طے کر کے آپ آسانی سے ایک براعظم سے دوسرے بر اعظم میں پہنچ جاتے ہیں۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار مبارک استنبول کے یورپی حصے میں ہے۔ استنبول کے قدیمی علاقے میں فصیل شہر سے متصل حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار ہے۔ مزار مبارک کے احاطے میں ایک بڑی مسجد بھی ہے۔ترک مساجد میں خطبے کے دوران سیاست پر گفتگو کی ممانعت ہے۔ ترکی کے بڑے شہروں کی مرکزی مسجد میں جو خطبہ دیا جاتا ہے اسے ایک مربوط نیٹ ورک کے ذریعے تمام مساجد میں نشر کیا جاتا ہے ہر مسجد کا امام سرکاری ملازم ہوتاہے۔مرکزی مساجد کے امام کے لیے لازم ہے کہ وہ پی ایچ ڈی یا کم از کم ایم اے پاس ہو۔ جبکہ چھوٹی مسجد کے امام کے لیے بی اے ہونا ضروری ہے۔
مزار مبارک اور مسجد ایوب کے درمیانی راستے میں کبوتروں کے غول کے غول تھے۔ساتھ ہی چھوٹا سا بازار ہے جہاں دینی کتب اور دوسری اشیائے ضروریہ کی بہتات نظر آئی لوگوں کی بڑی تعداد ہر طرف موجود تھی۔حضرت ابو ایوب انصاری ؓ مدینہ شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ ہی کے مکان پر رسول پاک ؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد قیام فرمایا۔ مسجد نبوی اور اپنے مکان کی تعمیر تک آپ حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے مکان پر ہی مقیم رہے۔اس بنا پر آپ کو ’’مہماندار رسولؐ‘‘ کا لقب بھی دیا گیا۔آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زید بن حارثؓ بھی اسی گھر میں رہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے عہد نبوی میں تمام غزوات میں حصہ لیا۔حجتہ الوداع میں بھی آپ آنحضرتؐ کے ہمراہ تھے۔ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد بھی آپ نے تمام عمر جہاد میں صرف کی۔یہاں تک کہ جنگ قسطنطنیہ میں شہید ہو گئے۔آپ کے مجاہدانہ سفر میںتینوں براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ شامل ہیں۔49ہجری میں حضرت امیر معاویہ ؓ نے قسطنطنیہ پر حملے کی غرض سے جو فوج تیار کی حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی اس میں شامل تھے۔اس فوجی بیٹرے کا سپہ سالار یزید بن معاویہ ؓ تھا۔ اسلامی فوجوں نے چار سال تک وقفے وقفے سے قسطنطنیہ پر حملے کئے۔ انہی حملوں کے دوران آپ بیمار ہو گئے۔ یزید بن معاویہؓ جب آپ کی عیادت کے لیے آیا تو پوچھا ’’آپ کو کچھ کہنا ہے‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’ہاں یہ کہ جب میں مر جائوں تو میرا جنازہ اٹھا کر اسے دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جا سکو لے جائو اور جب آگے بڑھنے کا امکان نہ رہے تو اسی جگہ مجھے دفن کر دینا‘‘۔ 2 ہجری میں آپ دار فانی سے کوچ کر گئے۔
آپ کی نماز جنازہ یزید بن معاویہ ؓ نے پڑھائی اور قسطنطنیہ کی فصیل کے سامنے دفن کیا گیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی قبر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔757ہجری میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے صحابہ کرام کی قبروں کو دریافت کرنے کا عمل شروع کیا۔اس وقت کے جید روحانی بزرگ شیخ شمس الدین نے ایک جگہ کی نشاندہی کی ۔تاریخی روایات میں ہے کہ آپ نے اس جگہ نور دیکھا۔ دو ہاتھ گہری زمین کھو دی گئی تو ایک پتھر بر آمد ہوا جس پر عبرانی خط میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا نام لکھا تھا۔یہ پتھر اب بھی حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کی قبر کے باہر ایک دیوار میں لگا ہوا ہے۔سلطان محمد فاتح نے اس جگہ جہاں سے یہ پتھر برآمد ہوا وہاں قبر پر ایک تابوت رکھوا دیا جس پر چاندی منڈھی ہوئی تھی اور ایک عمارت بھی تعمیر کروائی ۔ مزار کے ساتھ ایک جامع مسجد اور مدرسہ بھی بنوا دیا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار کے تین حصے ہیں۔ جامع ایوب، مزار ایوب اور قبرستان ایوب، جامع ایوب کے ایک کمرے میں سبز چادر میں لپٹا ہوا ایک علم بھی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تاریخی علم ہے جسے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ غزوات اور جنگوں میں اٹھایا کرتے تھے۔سلاطین عثمانیہ کی تاجپوشی کے موقعہ پر ہر سلطان یہاں آیا کرتا تھا اور شیخ الاسلام اس کی کمر پر سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان خان کی تلوار حمائل کیا کرتا تھا۔سلطان محمد فاتح کی کمر پر بھی شیخ الاسلام شمس الدین نے یہ تلوار آویزاں کی ۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ حافظ قران تھے۔ ڈیڑھ سو کے قریب احادیث مبارکہ بھی آپ سے منسوب ہیں ۔ تاریخی کتابوں میں آپ کی شخصیت کے بارے میں درج ہے کہ آپ حب رسولؐ، جوش ایمان، حق گوئی، اتباع سنت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، جہاد، تواضع، حسن ظن اور اعلیٰ اخلاق کی اعلیٰ مثال تھے ۔
فصیل استنبول سے متصل حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار کے احاطے میں تقریباً ایک گھنٹہ سے زائد قیام کر کے ہم واپس روانہ ہوئے۔ استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ شہر کئی تہذیبوں اور سلطنتوں کا امین رہا ہے۔اس حوالے سے انشااللہ آئندہ بات ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...