جے آئی ٹی رپورٹ میں تو ذکر نہیں،وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے والے کرپشن یا منی لانڈرنگ کا ثبوت لائیں:وزراءلیگی رہنما

Jul 16, 2017

لاہور+ اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نمائندہ خصوصی) مسلم لیگ (ن) نے وزیراعظم محمد نوازشریف سے اظہار یکجہتی کیلئے تقریبات کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں پریس کانفرنسیں اور تقریبات منعقد کرکے مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں نوازشریف‘ میاں شہبازشریف سے اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سیکرٹریٹ مسلم ٹاﺅن میں وفاقی وزیر چودھری برجیس طاہر‘ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی رانا محمد ارشد‘ لیبر ونگ پنجاب کے صدر سید مشتاق حسین شاہ‘ سرفراز کاظمی‘ تنویر نثار گجر و دیگر نے پریس کانفرنس کرکے میاں نوازشریف کی حکومتی کارکردگی کو سراہا اور انہیں پاکستان کی ترقی کا ضامن قرار دیا۔ برجیس طاہر نے کہاکہ وفاقی کابینہ اور پارلیمانی پارٹی نے عوام کی امنگوں کے مطابق وزیراعظم نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ رانا محمد ارشد نے کہا کہ میاں نوازشریف کے خلاف سازشیں کرنے والے پاکستان دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں تاہم انہیں منہ کی کھانی پڑے گی اور میاں نوازشریف سپریم کورٹ میں سرخرو ہوں گے۔ سید مشتاق حسین شاہ نے کہاکہ ملک کے لاکھوں مزدور وزیراعظم نوازشریف کے ایک اشارے پر سڑکوں پر ہوں گے۔ پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگی کارکنوں نے قائد ترا اک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا اور قائد تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعرے لگائے۔ وزیراعظم نوازشریف کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں نوازشریف سے اظہار یک جہتی کے لئے تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت مسلم لیگی رہنما و رکن پنجاب اسمبلی میاں ماجد ظہور نے کی۔ تقریب میں چیئرمین عامر خان‘ میاں حامد محمود‘ حاجی اسحاق‘ عرفان تاج‘ انیس خان لودھی‘ شہباز حیدر سمیت مسلم لیگی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی جو میاں نوازشریف‘ میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے حق میں نعرے بازی کرتی رہی۔ ماجد ظہور نے صدارتی خطاب میں کہاکہ میاں نوازشریف نے چار سال میں پاور پراجیکٹس کی تعمیر او ردہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو کارنامے سرانجام دئےی اس سے ملک دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پانامہ کیس کے تانے بانے پاکستان کے دشمنوں سے ملتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ متنازع ہے‘ ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگی کارکن اپنے قائد کے ساتھ ہیں اور ان کے ایک اشارے پر میدان عمل میں ہوں گے۔ قبل ازیں وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پاکستان کو آگے لے جانا چاہتے ہیں لیکن مخالفین ہمیں کھینچنے کے چکر میں ملک کو پیچھے کھینچ رہے ہیں۔ پانامہ پیپرز کے معاملہ میں سیاستدانوں کا امیج خراب ہوا ہے اور موجودہ سیاسی لڑائی میں سب ہارے ہوئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سعد رفیق نے اپنی تقاریر کے ٹرانسکرپشن عدالت عظمیٰ میں جمع کرئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا توہین عدالت نہیں کی تو معافی کس بات کی مانگوں، انہیں کوئی نوٹس بھی نہیں ملا۔ عمران، شیخ رشید اور اعتزاز احسن کے ٹرانسکرپٹس بھی منگوائے جائیں۔ سیاست الزامات نہیں عوامی مسائل کے حل اور کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے مشورہ دیا جو تحفظ آئین میں موجود ہے اس کو لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس باہر سے ایک سازش ہے۔ اس سازش میں دیگر ممالک بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ 2018ءکے الیکشن کا بیانیہ بن رہا ہے کہ چور ہیں، فلاں نے ملک لوٹ لیا، ہم پاکستان میں غربت کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے، یہ طے ہونا چاہئے کہ حکومت کے ذریعے آئیں گے اور جائیں گے، ووٹرز ہی سیاستدانوں کا احتساب کر سکتے ہیں۔ پہلے دھاندلی کا الزام لگایا گیا، عدالت سے بری ہو کر نکلے۔ عمران خان انتخابی بے ضابطگیوں کو بنیاد بنا کر کنٹینر پر چڑھے، عمران خان جدھر سے جیتے ادھر دھاندلی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، ملک کے خلاف عالمی سازشوں کی تاریخ ہے، سوشل میڈیا پر پڑھے لکھے جاہلوں کا ایک لشکر ہے۔ حکمران جماعت (ن) لیگ کی قیادت نے پانامہ لیکس کے معاملے پر پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مختلف 7آپشنز پر مشتمل اپنی حکمت عملی طے کرلی ہے۔ ضرورت پڑنے پر وزیراعظم پارلیمنٹ اور قوم سے خطاب بھی کر سکتے ہیں۔ نجی ٹی وی نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران لیگ کی قیادت نے طے کیا ہے کہ وزیراعظم ازخود استعفیٰ نہیں دیں گے۔ اگر عدالت نے متوقع فیصلہ میں ممکنہ طور پر وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا تو اس کو قبول کیا جائے گا۔7 آپشنز میں پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی رپورٹ پرسپریم کورٹ میں اعتراضات دائر کرنا، وزیراعظم کی جانب سے ازخود مستعفی نہ ہونا، وزیراعظم کی ممکنہ طور پر نااہلی کی صورت میں قومی اسمبلی تحلیل نہ کرنا، نئے وزیراعظم کی نامزدگی، نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنا، وزیراعظم نواز شریف پر اعتماد کیلئے پارلیمنٹ میں قرارداد جمع کرنا اور عوامی رابطہ مہم شامل ہیں۔ اہم ترین لیگی ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم و لیگ کے سربراہ نواز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں جے آئی ٹی رپورٹ، اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے سمیت مختلف امور پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ وزیراعظم و شریف خاندان کی جانب سے پیش کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا جس کے لئے وزیراعظم کی قانونی ٹیم نے درخواست تیار کر لی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت نے طے کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن کی قرارداد مسترد کرانے کیلئے اتحادی وتمام پارلیمانی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔ اسحق ڈار کو سیاسی رابطوں کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ پارٹی قیادت نے طے کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی حکومت کے خلاف ممکنہ سازش کے معاملے سے عدالت، پارلیمنٹ اور عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔ پارٹی قیادت نے اپوزیشن کے الزامات کا بھرپور سیاسی جواب بھی دینے اور ن لیگ کی جانب سے وزیراعظم پر اعتماد کیلئے پارلیمنٹ میں قرارداد جمع کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اظہار یکجہتی
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی /نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں طارق فضل چودھری، دانیال عزیز نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں کہا کہ جے آئی ٹی سات سمندر پار سے تفصیلات لے آئی، پاکستان میں وزیراعظم کے سیاسی ادوار کا کوئی الزام نہ لاسکی۔ تفتیش کے مینڈیٹ کے بالکل برعکس وزیراعظم اور انکے خاندان کے کاروبار کی سرجری کی گئی۔ 10 جلدوں پر مشتمل رپورٹ میں کہیں منی لانڈرنگ یا کسی طرح کی کرپشن کا ذکر نہیں۔ ملک میں اربوں کھربوں کے منصوبے شروع کئے، ایک بھی جگہ کرپشن نہیں ملی۔ تین بجلی گھروں کا افتتاح کیا گیا جن میں 186 ارب روپے کی بچت کی گئی۔ سی پیک سمیت کئی منصوبوں میں کوئی الزام جے آئی ٹی کو نہیں ملا۔ رپورٹ میں کہیں ذکر نہیں پیسہ چوری ہوا یا منی لانڈرنگ ہوئی۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں پیسہ منی لانڈرنگ سے بھیجنے کا کہیں ذکر نہیں۔ جے آئی ٹی وزیراعظم کے 35 سال کے کیریئر سے متعلق کوئی ثبوت نہ لا سکی۔ چیلنج کرتے ہیں نوازشریف اور شہبازشریف پر کرپشن کا کوئی ایک ثبوت ڈھونڈ کر لائیں، دونوں رہنماﺅں پر کرپشن، چوری، ٹیکس، چوری کے الزام لگائے جا رہے ہیں، کوئی ایک الزام ثابت کردیں۔ جے آئی ٹی سے وزیراعظم کے والد مرحوم کے کاروبارکی تفتیش شروع کی۔ ہم میں سے کتنے لوگ وراثت میں ملنے والی جائیداد کا حساب دیتے ہیں؟ وزیراعظم نے دستاویزات بھی دیں جو ان کی نیک نیتی ہے۔ وراثت سے ملنے والی جائیداد سے متعلق قانون بھی نہیں پوچھ سکتا۔ جو استعفیٰ مانگ رہے ہیں وہ پہلے کوئی ثبوت ڈھونڈ کر لائیں۔ تحریک انصاف کی اصل جماعت کون سی ہے اور ترجمانی کون کر رہا ہے، اس پر افسوس ہے۔ آج تحریک انصاف ہائی جیک ہو چکی ہے، ترس آتا ہے تحریک انصاف کے رہنماﺅں پر، پی ٹی آئی کس کے حوالے کر دی۔ مسلم لیگ ن نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں متحد ہے، قانونی جنگ لڑیں گے، سرخرو ہوں گے۔ دانیال عزیز نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے جے آئی ٹی رپورٹ پڑھی ہی نہیں، مے فیئر سے متعلق پوری ایک جلد موجود ہے۔ کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کی ملکیت کے بارے میں کوئی چکر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں واحد پیراگراف وزیراعظم کا فلیٹ سے متعلق بتایا ہے۔ پیراگراف میں فلیٹ سے وزیراعظم کا یہ تعلق بھی حتمی نہیں۔ یہ صرف انٹرویو وغیرہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ کائرہ او خورشید شاہ نے بہت باتیں کیں، پہلے رپورٹ پڑھ لیں، فلیٹ میں کچھ عرصہ قیام سے ملکیت ظاہر نہیں ہوتی، فلیٹ میں ٹھہرنا ثبوت قرار دیا گیا، یہ رپورٹ ہے ماشاءاللہ! عمران خان کے نتھیاگلی میں قیام سے کیا وہ ان کی ملکیت ہو گئی ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں الفاظ موسٹ لائیکلی (Most Likely) کا مطلب کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ رپورٹ میں سٹرانگلی سپورٹ (Strongly Support) کا لفظ استعمال کیا گیا، کیا یہ ہوتی ہے جے آئی ٹی رپورٹ؟ سٹرانگلی سپورٹ کون سے قانونی شواہد ہیں، جو کہتے تھے الثانی فیملی سے تعلق نہیں تو سوال کیوں نہیں کیا گیا۔ قطر کا ذکر تو جے آئی ٹی رپورٹ کے شروع میں ہونا چاہئے تھا۔ رپورٹ میں کئی ملکوں سے سوال پوچھے، قطر سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا قطر اہم جزو تھا، ان کا کوئی بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ دبئی کا ریکارڈ نکلوانے کی بات کی گئی لیکن قطر سے کیوں سوال نہیں پوچھا گیا۔ قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہیں کرنا تھا تو قطری حکومت سے کیوں نہیں پوچھا گیا؟ رپورٹ میں 1962ءسے کہانی شروع ہوئی، اس میں قطر سے نہیں پوچھا باقی سب سے پوچھ لیا۔ چھتیں کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات کے جواب میں نکلا ”اِٹ سیمز“ (It seems)۔ اِٹ سیمز کے قانونی مطلب کیلئے گوگل کریں تو جواب آتا ہے ”مذاق“۔ صاف نظر آ رہا ہے یہ کام جھٹ پٹ ہے۔ موسٹ لائیکلی اور اِٹ سیمز کے الفاظ سے وزیراعظم کو قصوروار ٹھہرانے جا رہے ہیں؟ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ باہمی قانونی معاونت پر کام جاری ہے۔ جوڈیشل اکیڈمی میں اب راتوں کو کیوں کام ہو رہا ہے۔ عاصم حسین سے 230 ارب روپے کیا ریکور ہو گئے؟ عاصم حسین آج کل جیل میں ہیں یا باہر، سندھ میں نیب کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی اپنی منی ٹریل پر سپریم کورٹ نے سوال اٹھا دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لیں، ڈھانچہ تیار کیا گیا کہ کس طرح ریفرنس بھیجا جائے اور میڈیا ٹرائل جاری رہے، مریم نواز کیخلاف میڈیا ٹرائل جاری رہا جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ذکر تک نہیں۔ پی ٹی آئی درس دے رہی ہے کہ احتساب ہونا چاہئے۔ خیبر پی کے میں دو سال سے احتساب کمشن پر تالے پڑے ہیں۔ فارنزک آڈٹ کیلئے منتخب شخصیت کا چناﺅ کیسے کیا گیا؟ واجد ضیاءبے نظیر قتل کی جے آئی ٹی کے بھی سربراہ تھے، بے نظیر کے ”جمہوریت بہترین انتقام“ کے نعرے کی توہین نہ کریں، پانچ سو چھوکرے لے کر جو بات منوانی ہو منوا لیں، اچھی ٹیکنالوجی ہے، اس جے آئی ٹی رپورٹ کو کون مانے گا۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ان چیزوں سے پرانے پاکستان کی بو آ رہی ہے نئے پاکستان کی نہیں۔

مزیدخبریں