دنیا میں پاکستان کی پہچان ایک زرعی ملک کی حیثیت سے ہے لیکن وقت گذرتا گیا اور ہمار ی کمزورپالیسیوں اور عاقبت نااندیشانہ فیصلوںسے ہم زراعت کے شعبہ میں خود کفالت کی حیثیت نہ اختیار کرسکے بلکہ ہمارا زرعی گراف نیچے کو چلا گیا۔
ہمارے حکمراں ہوں یا سیاستدان یا مختلف شعبوں کے، اداروں کے سربراہ بیشتر بڑے بڑے اور خوبصورت دعوے کرنے اور پریس کانفرنسیز کرنے کے انتہائی شوقین اور ماہر بلکہ ماسٹر ہیں۔ ان کو حقیقی گرائونڈ میں بے سُرے بلکہ ناکام لوگوں میں شمار کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایسے لوگ اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں اور ڈپلومے وغیرہ سے لدے پھندے تو ہوتے ہیں لیکن ان کی سربراہی یا قیادت میں ان کے اپنے اداروں یا شعبوں میں متعلقہ کام کے حوالے سے کوئی بہتری نظر آتی ہے نہ ہی کسی بھی قسم کی ترقی کے گراف میں کوئی جنبش نہ کوئی لہر اُٹھتی دکھائی دی۔ کیا ایسے لوگ ان اعلیٰ اور اہم اداروں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھنے کے اہل ہیں۔۔۔۔؟ یہ لوگ اپنی رشتہ داریوں، دوستیوں اور سفارشوں کے بل بوتے پر ٹھنڈے اور قیمتی فرنیچر سے مزین کمروں میں براجمان ہوجاتے ہیں اور ایسے میں اپنی کم اہلیت اور صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ملک اور قوم کو نقصان پہنچانے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ یہ وطن عزیز کے ایسے دشمن ہیں جو ملکی اداروں اہم شعبوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ہمارے یہاں میرٹ کا بڑا شورُ وغل تو ہوتا ہے اور وہ صرف زبانی کلامی، نعروں اور دعووں کی حد تک اس سے آگے صفر صفر اور صفر۔۔۔۔
ملکی سیاسی لیڈران بالخصوص حکمراں جماعت کے لوگ ہر چھوٹے بڑے کام کا کریڈٹ خود لینا ضروری بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور اقتدار کے خاتمہ کے بعد بھی ایک عرصہ تک نشہ اقتدار اُتر نہیں پاتا۔ اور وہ بہت کچھ ایسے دعوئے اور نعرے لگادیتے ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ لیکن نہ تو ان کو اس کا کوئی احساس ہوتا ہے اور نہ ہی اندازہ ان کے نزدیک تو وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ لوگوں کے دلوں کی آواز ہے اور لوگ اس کی تائید کریں گے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا اور وقت گذر چکا ہوتا ہے اور یہ اپنے ہاتھوں اپنے پائوں پر کلہاڑی کا استعمال کرچکے ہوتے ہیں۔
25 ؍جولائی 2018ء ملکی انتخابات کی گہماگہمی میں اب بتدریج اضافہ ہورہا ہے پنجاب بالخصوص لاہور میں دو، تین جولائی کو ہونے والی موسلا دھار طوفانی بارش نے سڑکوں اور گلیوں کو ندی نالوں کی شکل دیدی ہے ۔ طوفان بادو باراں نے درختوں کو اکھاڑ اور کمزور مکانوں کو زمین بوس کردیا۔ اس بارش سے یہاں انتخابی مہم میں چند دن تک تو ضرور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس صورتحال میں انتخابی میدان میں اُترے اُمیدواران اور ان کے ساتھی یہ کسر مزید محنت اور کارکنوں، ورکرز میں تیزی لاکر پورا کرنے کی کوشش کریں گے ۔
اس انتخابی گہماگہمی ، کارنر میٹنگوں اور جلسوں میں امیدوار اپنی پارٹیوں کے منشور پر روشنی ڈالنے کے علاوہ مخالف اُمیدواروں کے خلاف الزامات لگانے میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں اپنا پورا زور لگائے ہوئے ہیں۔ کوئی کسی کو آمر کی پیداوار کہتا ہے تو دوسرا اس کو بھی ایسی ہی پہچان کرادیتا ہے ۔ کوئی کسی پر کرپشن اور قومی خزانے کو لوٹنے کے الزامات لگانے میں مصروف عمل ہے تو کوئی اپنے بڑوں اور بزرگوں کی سیاسی خدمات اور اُصولوں پر چلنے اور جمہوریت کی خدمت کرنے کو اپنی سیاسی زندگی کا محور بتاتا تو کوئی قوم اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی خدمت کرنے کے وعدے پر ووٹ مانگ رہا ہے ۔ ان تمام میں ایک چیز مشترک ہے وہ یہ کہ وہی ان (عوام) کے ووٹ کا جائزحقدار ہے۔ لہٰذا ووٹ بھی اسی کو دو۔
سیاستدان ویسے تو الزامات اور دعوئوں کی سیاست تو ہمیشہ کرتے ہیں لیکن انتخابات کے موقع پر ایک خاص توانائی کے ساتھ یہ اپنے اپنے مخالفین کو جھوٹا ، مداری ، کرپٹ ، لٹیرے، علی بابا چالیس چور، اور جمہوریت و عوام دشمن القابات سے نوازتے نظر آرہے ہیں اور یوں میدان سیاست کے خود نمائی اور خود غرضی کے کھیل میں یہ لوگ تہذیب و شائستگی ، صبر و برداشت کو جھٹک کر صرف اور صرف اس راستے پر چلنے کو درست جانتے ہیں جس کو وہ اپنی کامیابی کے لئے بہترین سمجھتے ہیں۔
بلاول زرداری نے چند دن پہلے اپنی شہید والدہ ماجدہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر لاڑکانہ میں اپنے خطاب میں کہا کہ بے نظیر کی شہادت بھی بے نظیر تھی ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ شہید بے نظیر بھٹو ملک کی ایک بڑی اور سیاسی معاملات پر ایک ماہر سیاستداں ہی نہیں بلکہ صبرو برداشت کے اوصاف کی بھی حامل تھیں۔ بلاول زرداری نے یہ بھی کہا کہ بھٹو کو ختم کرنے والے بھٹو ازم کو ختم نہیں کرسکے ٹھیک کہا واقعی بھٹو ازم کو ختم کرنے کی مخالفین کے تمام تر جتن اور منصوبے ناکام ہوئے لیکن افسوس صد افسوس کہ بھٹو کے اپنوں نے وہ کام کردکھایا جو غیر اور مخالفین نہ کرپائے تھے۔
بلاول زرداری صاحب آپ ابھی نوجوان ہیں سیاسی بالغ ہونے میں ابھی آپ کو وقت لگے گا لہٰذا آپ حقیقت کا چشمہ لگائیں بھٹو از م کو نقصان تو آپ کے والد محترم زرداری صاحب کے پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا بننے کے بعد ہی آغاز ہوگیا تھا اور آج کی پیپلز پارٹی بھٹو ازم سے مکمل عاری اور آپ کے بزرگوار آصف علی زرداری کی سوچ اور ان کے منشور پر ہی چلائی جارہی ہے صرف نام اور نعرے بھٹو کے باقی سب کچھ مرضی اور احکامات زرداری صاحب کے ۔ اور ایسا ملک کے تجربہ کار و جہاندیدہ صحافی و تجزیہ نگار اپنے کالموں، تجزیہ نگاری اور انٹرویوز میں برملا لکھ اور کہہ چکے ہیں تو پلیز آپ کچھ تو سچ بولیں۔
پیپلز پارٹی 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں اپنے منشور کے اہم نعرے ’’بھوک مٹائو‘‘ کے ساتھ میدان میں اُتری ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی عوام ان کا روٹی ، کپڑ ا اور مکان کا نعرہ بھلاکر آج ایک بار پھر ان کے ایسے نعروں، دعووں کے جھانسے میں آجا ئیں گے اور ان کے ایسے نعروں اور دعووں پر یقین کی مہر لگائے گی یا ان کو مسترد کردے گی ۔
نعرہ تو عمران خان اور ان کی PTI کا بھی ہے کہ ’’بلا بنائے گا نیا پاکستان ‘‘ اور تبدیلی آگئی ہے ۔ محمد نوازشریف کا کہنا ہے کہ میں نہ ڈروں گا اور نہ جھکوں گا۔ انصاف کے دوہرے معیار نہ منظور، نواز شریف کا نعرہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ان سب نعروں، وعدوں اور دعوئوں سے وطن عزیز کی فضا گونج رہی ہے اور عوام کے فیصلہ کا دن 25؍جولائی قریب ہے اور انشاء اللہ 25 جولائی کو عوامی فیصلہ بیلٹ بکسوں میں محفوظ ہوچکا ہوگا اور اس کی خوشبو سے وطن عزیز کی فضا معطر معطر ہوگی۔
بھٹو ازم کے دشمن اپنے یا پرائے۔۔۔؟؟
Jul 16, 2018