میاں نواز شریف کی جس انداز سے واپسی ہوئی ہے اس سے ایک تاثر یہ سامنے آرہا ہے کہ” ڈیل کے تحت“ سب کچھ طے تھا ۔بس ان لوگوںنے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے یہ سار”ا تماشہ لگایا“ ہے ۔اگر ڈیل نہ ہوتی تو میاں نواز شریف ”عیش وعشرت “والی زندگی اور” بیمار اہلیہ“ کو چھوڑ کر واپس نہ آتے ۔لیکن اگر میاں نواز شریف احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد ”خاموشی“ سے واپس آجاتے اور قانون کے سامنے” سر سر نگوں“ کردیتے تو ان کا نہ صرف اقبال بلند ہونا تھا بلکہ عوام میں ان کی پزیرائی بھی زیادہ ہونی تھی ۔دکھ ہو ا کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کی کس طرح ”تذلیل “کرائی جا رہی ہے ۔ویسے اگر میاں نواز شریف عدلیہ کے پاس کیس جانے سے قبل ہی اس بات کو تسلیم کر لیتے کہ ان کے اثاثے واقعی ان کی آمدن سے زیادہ ہیں اس پر وہ نہ صرف” شرمندہ“ ہیں بلکہ تمام زائد اثاثے واپس جمع کروانے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ان کے اس فیصلے کے بعد قوم کے دلوں میں ان کی عزت بھی زیادہ ہونی تھی اور اگلی بار قوم نے انھیں دوتہائی اکثریت دے کر اسمبلی پہچانا تھا اور کوئی بھی تبدیلی ان کا راستہ نہ روک سکتی ۔ 1999 ءمیں میاں نواز شریف ایک طاقتور وزیراعظم تھے۔لیکن جب انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو فارغ کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اتنے بھی طاقتور نہیں۔اس بار بھی شاید وہ اس” زعم“ میں مبتلا تھے کہ وہ بڑے طاقتور ہیں لیکن اب انھیں پتہ چلا ہو گا کہ وہ اکیلے ہی اس قید میں رہیں گے ۔تب سعودی اور امریکی دوستوں نے بیچ بچاو¿ کروایا اور نواز شریف کو معافی مل گئی لیکن اگر اب کی بار کوئی این آر او ہوا تو قوم نہ صرف اسے برداشت نہیں کرے گی بلکہ ایسی حرکت کرنے والوں پر بھی” قافیہ حیات تنگ “کر دے گی۔ کیونکہ عوام کو اب اپنی طاقت کابھی ”علم“ ہو گیا ہے اور لوٹ مار کر کے بھاگنے والوں سے بھی وہ آگاہ ہیں ۔ طاقت ایک ایسا” نشہ “ہے۔ جو ایک مرتبہ لگ جائے تو کبھی نہیں چھوٹتا۔ لیکن میاں نواز شریف قسمت کے” دھنی“ ہیں ۔ان کی قسمت پلٹی اور وہ پھر وزیراعظم بن گئے لیکن پرانے زور آوروں کو پسند نہیں آئے اور انھوں نے پانامہ کا کیس بنا کر انھیں اقتدار سے الگ کر دیا ہے ۔اب اڈیالہ جیل ان کا مقدر ہے ۔جیل میں انھیں سہولتیں قوانین کے مطابق دی جا چکی ہیں ۔لیکن ان کے بیٹے حسین نوازنے کہا ہے کہ ان کے والد کو رات کو سونے کیلئے بستر نہیں دیا گیا۔ غسل خانہ انتہائی غلیظ تھا۔ غسل خانے کی عرصہ دراز سے صفائی نہیں ہوئی تھی،کمرے کی حالت بھی بہت خستہ ہے، کمرے اندر کوئی جالی وغیرہ نہیں لگی جس کے باعث مچھر، مکھیاں بہت زیادہ ہیں۔ مچھروں نے نواز شریف کو سر سے پاﺅں تک کاٹا ہوا تھا۔ کوئی کولر یا اے سی وغیرہ نہیں ہیں©©©©©©©©©©©©© انھیں کون سمجھائے کہ ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں ویسے مسلم لیگ ن کی دس سال صوبہ پنجاب پہ حکومت رہی ہے لیکن وہ جیل کلچر کو نہیں تبدیل کر سکے ۔اسی لیے مچھر اور بچھو وافر تعداد میں ہیں ۔ ملاقات کا وقت ایک گھنٹہ تھا، دونوں بھائی آپس میں ملکر جذباتی ہو گئے۔ اس ایک گھنٹہ کے دوران محترمہ بیگم شمیم شریف 45 منٹ روتی رہیں۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے ۔ اس کے دل میں اپنے بچوں کی ایسی محبت ہوتی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 42 جیلوں میں سے صرف دو جیلیں ایسی ہیں جہاں پر قیدیوں کے لیے اے کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ان دونوں جیلوں میں بہاولپور اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل شامل ہے۔جیل میں قیدیوںکو تین کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے۔ سی کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل، ڈکیتی، چوری، لڑائی جھگڑے اور معمولی نوعیت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں۔بی کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں تو ملوث ہوں تاہم اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔گریجوئیشن پاس قیدی بھی بی کلاس لینے کا اہل ہوتا ہے۔جیل حکام کے مطابق اے کلاس کیٹگری اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ، سابق وفاقی وزرا اور ان قیدیوں کو دی جاتی ہے جو زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں۔اے کیٹیگری کے قیدیوں کو ملنے والی سہولیات۔جیل مینوئل کے مطابق جن قیدیوں کو اے کلاس دی جاتی ہے انھیں رہائش کے لیے دو کمروں پر محیط ایک الگ سے بیرک دیا جاتا ہے۔ جس کے ایک کمرے کا سائز نو ضرب 12 فٹ ہوتا ہے۔قیدی کے لیے بیڈ، ایئرکنڈشن، فریج اور ٹی وی کے علاوہ الگ سے باورچی خانہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اے کلاس کے قیدی کو جیل کا کھانا کھانے کی بجائے اپنی پسند کا کھانا پکانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اے کلاس میں رہنے والے قیدی کو دو مشقتی بھی دیے جاتے ہیں۔لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں بے گناہوں کی لاشیں گرنا ابھی تک بند نہیں ہوئیں،بم دھماکے ،جلاﺅ گھیراﺅ اور قتل وغارت جہالت کی بدولت ہیں ۔جہالت‘ اشیاءکے چہروں پر پڑے ایک” نقاب“ کی طرح ہے۔ جو بدبخت لوگ ا± س نقاب کو اِن اشیاءکے چہروں سے نہیں ہٹا سکتے وہ کبھی بھی کائنات کی بلندحقیقتوں پر اثراندازنہیں ہو سکتے۔جہلا ہی آج دنیا کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقہ جات یا فاٹا میں 73 فیصد اور بلوچستان میں 71 فیصد افراد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 49 فیصد، گلگت بلتستان اور سندھ میں 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 25 فیصد افراد غربت کا شکار ہیں۔ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 10 فیصد سے کم افراد غربت کا شکار ہیں اور اس کے برعکس بلوچستان کے قلعہ عبداللہ، ہرنائی اور برکھان میں 90 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کثیر الجہت غربت میں صرف آمدنی کو ہی معیار نہیں بنایا جاتا بلکہ صحت، تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں غربت کے شکار افراد میں 43 فیصد کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں، 32 فیصد افراد غیر معیاری زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 26 فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔جب تک ہم معیار زندگی کو بہتر نہیں کرتے تب تک ملک میں افراتفری اور قتل و غارت کے بازار کو روکنا ناممکن ہے۔بلوچستان میں ایک سو سے زائد افراد کا قتل بہت بڑا سانحہ ہے ۔نگران حکومت کو امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے اقدامات کرنے چاہیں ۔
”الیکشن رزلٹ طے کریگا“
Jul 16, 2018