1960ءمیں سندھ طاس واٹر ٹریٹی قائم ہو اتب ورلڈ بینک اور عالمی آبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی فہرست میں سب سے پہلے کالا باغ ڈیم بنانے کی سفارش کی گئی مگر ایوب خان کی خود غرضی ، اقربا پروری اور ہٹ دھرمی کے باعث کالا باغ ڈیم کی جگہ تربیلا کو ترجیح دیتے ہوئے پہلے تعمیر کا فیصلہ ہو ا۔بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق نے کالا باغ ڈیم کے لئے خاطر خواہ پیش رفت جاری رکھی مگر جنرل ضیاءالحق کے بعد ہر آنے والے حکمران نے آبی ذخائر کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیا۔ جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے ۔آج صورت حال یہ ہے کہ زراعت تو درکنار پاکستان کے شہروں او ر قصبوں میں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔تازہ اطلاعات کے مطابق انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے دریاﺅں میں پانی کی آمد کی کمی کے باعث چاروں صوبوں کے کوٹے کو کم کر دیا ۔نئی تقسیم کے مطابق پنجاب کو ایک لاکھ چودہ ہزار کیوسک پانی فراہم کیا ۔ بلوچستان کو سولہ ہزار کیوسک پانی جبکہ سندھ کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک پانی پہنچایا اور صوبہ سرحد کو اکتیس سو کیوسک پانی جاری کیا گیا ۔خبرکے مطابق دریاﺅں کے آغاز کے مقام پر بارشوں کی کمی کے باعث ہمارے دو بڑے ڈیموں تربیلا اور منگلا تاریخ کی کم ترین سطح کو چھورہے ہیں ۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں 8جولائی کو کل ذخیرہ شدہ پانی ایک ملین ایکڑ فٹ رہ گیا ہے ۔ تربیلا میں پانی کی سطح 1386فٹ اور منگلا میں یہ سطح 1122فٹ ہے ۔بارشیں نہ ہونے پر یہ صورت حلال مزید مخدوش ہو سکتی ہے ۔ وطن عزیز پانی کی جس بھیانک قلت سے دو چار ہے اس کے باعث موجودہ حالات میں فصلوں کی کاشت کے امکانات کم تر ہوتے جا رہے ہیں ۔اس پسپائی اور مایوسی کے اندھیروں میں ڈیموں کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان کا عزم صمیم اور ڈیم تعمیر کرنے کا نعرہ مستانہ حوصلہ افزاءہونے کے ساتھ روشن مستقبل کی علامت سمجھاگیا ۔جناب چیف جسٹس عالمی اداروں کی اس (رپورٹ) پر تڑپ اٹھے کہ اگر پاکستان نے پانی کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو 2025ءتک جنوبی ایشیاءمیں پاکستان ریگستان کا منظر پیش کرے گا ۔جناب چیف جسٹس نے اس خوفناک صورت حال پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو رفوری طورپر دیا میر بھاشا اور مہنمد ڈیم تعمیر کرنے کا صرف حکم صادر ہی نہیں کیا بلکہ ڈیموں کی تعمیر کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جیب سے دس لاکھ روپے دے کر مہم کا آغاز کیا جس کے بعد سرکاری و نجی اداروں اور انفرادی طور پر فنڈ میں رقوم جمع کرانے کا سلسلہ چل نکلا ۔چیف جسٹس کے حکم پر سٹیٹ بینک نے ایک قومی ڈیم کے حوالے سے درج ذیل اکاﺅنٹ نمبر جاری کر دیا ۔03-593-299999-001-4جس میں ہر خاص و عام اپنی گنجائش اور جذبوں کے مطابق شامل ہو سکتا ہے ۔بچوں اور کم آمدنی والے افراد کے جذبوں کی تسکین کے لیے ایس ایم ایس نمبر کا بھی خصوصی اجراءہو چکا ہے ۔جس کے تحت DAMلکھ کر 8000پر Sendکرنے سے ڈیم کی تعمیر میں 10روپے عطیہ کیا جا سکتا ہے ۔مہمند ڈیم تعمیر کے بعد 1594ملین کیوسک پانی ذخیرہ ہوگا اور 800میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی ۔ مہمند ڈیم سے فاٹا سمیت صوبے کے مختلف اضلاع کو زراعت کی ضروریات کے علاوہ پینے کا صاف پانی بھی مہیا ہو سکے گا جبکہ ہر سال آنے والے سیلابوں سے ہونے والی بربادی سے بھی محفوظ ہو سکیں گے ۔دیا میر بھاشا ڈیم کا محل وقوع چلاس سے چالیس کلومیٹر نیچے گلگت بلتستان میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرآف دیا میر ہے جہاں 32قصبوں میں 4267گھر ہیں جن میں تیس ہزار تین سو پچاس افراد رہائش پذیر ہیں ۔ منصوبے کی تکمیل کے لئے 37419ایکڑ زمین درکار ہے جس میں قابل کاشت بنجر اور دیگر 19062ایکڑ سرکاری جبکہ 18357ایکڑ نجی اراضی شامل ہے ۔ واپڈا افسران کے مطابق 85%زمین حاصل ہو چکی ہے ۔ منصوبے کی تعمیر کے بعد 6.4ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جس سے 4500میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی ۔ دیا میر ڈیم کی تعمیر کے بعد ملکی آبی ذخیرہ کی گنجائش 38سے بڑھ کر 45دن ہو سکے گی ۔دیا میر ڈیم کے حوالے سے بین الاقوامی آبی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق یہ حقائق بھی صرف نظر نہیں کئے جا سکتے کہ دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل یہ خطہ شدید زلزلوں کے خدشات سے دوچار ہے ۔ اس پر آنے والی لاگت کا تخمینہ 14بلین ڈالرز،100کلومیٹر سے زیادہ شاہراہ ریشم ڈیم کی زد میں آنے کے بعد یہ شاہراہ دوبارہ تعمیر ہونی ہے جس پر 6بلین ڈالرز کے اخراجات کا امکان ہے اور ڈیم سے حاصل ہونے والی بجلی کو ٹرانسمیشن کے ذریعے قومی گرڈ سے منسلک کرنے کا مرحلہ بھی خاصا صبر آزما بتایا جاتا ہے جس کا تخمینہ بھی تین بلین ڈالرز ہوگا۔ بھاشا ڈیم کی تکمیل کے لئے پندرہ سال کا طویل عرصہ درکار ہے ۔کوئی عالمی مالیاتی ادارہ اس منصوبے کے لئے فنڈ مختص کرنے کےلئے فوری طور پرتیار نہیںاور پاکستان کو اپنے طور پر زر کثیر مہیا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اس کے برعکس کالا باغ ڈیم کی جھیل دو سال میں پانی ذخیرہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے ۔ اس ڈیم کا بیشتر کام پہلے ہی تکمیل پذیر ہے لہذا قلیل مدت اور کم تر لاگت میں ایک بڑا آبی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے جس سے چاروں صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین سیراب و شاداب ہونے کے علاوہ سستی بجلی کا ہدف بھی آسان دکھائی دیتا ہے ۔سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے والا واحداور سب سے بڑا مقام کالا باغ ڈیم ہے ۔
قارئین کرام ۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے عوامی مسائل کے حل کے لئے شب و روز انتھک محنت اور قومی امور میں والہانہ جرات کا مظاہرہ جہاں قابل دید اور واجب تقلید ہے وہاں بلا شبہ ملکی یکجہتی ہم آہنگی اور نظریاتی لام بندی کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ راقم الحروف کی دانش کے مطابق اگرجناب چیف جسٹس مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرکے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کی ترتیب و ترجیح طے کرنے کی کاوش کریں جس کے تحت کم لاگت اور کم مدت میں تعمیر ہونے والے ڈیموں کو فوقیت دی جائے اور ان کی آمدنی سے طویل مدت ڈیم تعمیر کئے جائیں۔ جناب چیف جسٹس صاحب کالا باغ ڈیم جیسے قومی منصوبے کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک قومی کمیٹی تشکیل دے کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مخالف عناصر کے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھائیں تو یہ سب سے بڑی قومی خدمت اور اعزاز ہوگا اور پاکستان ایٹمی قوت کے بعد جنوبی ایشیاءمیں ناقابل شکست معاشی اور اقتصادی قوت بن کے ابھرے گا ۔ہمیشہ کے لئے اس کارنامے پر جناب چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کو یاد رکھا جائے گا ۔راقم قوم کی جانب سے دست بستہ ملتمس ہے بابا جی دیا میربھاشا اور مہمند سے پہلے کالا باغ ضروری ہے ۔