”آئندہ انتخابات۔۔۔ بہتری کی امید عبث ہے“

چند دن پہلے ایک اخبار میں میں نے پڑھا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کرنے اور جعلی ووٹ ڈالنے کے بائیس مختلف طریقے رائج ہیں۔ ویسے بھی ہم ایسے دو نمبر کے کاموں میں بہت ماہر مشہور ہیں۔ ان بائیس حربوں میں سے صرف ایک کی تفصیل پیش کرونگا۔
2013ءمیں ملک میں کل ووٹرز کی تعداد 85.7 ملین(پچاسی اشاریہ سات ملین) تھی۔ 2018 ءمیں 22 (بائیس) ملین اور ووٹرز شامل ہو جانے کا اعلان ہوا ہے۔ مزید برآں 2013 ءاور 2018 ءکے درمیانی عرصے میں مرجانے والے ووٹروں کو لسٹ سے خارج کردیا گیا تھا۔ نتیجتاً 2018 ءمیں کل ووٹروں کی تعداد 105.9 (ایک سو پانچ اشاریہ نو) ملین بتائی گئی ہے۔
پاکستان میں آبادی کی شرح میں سالانہ تقریباً 2.4 فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 22 (بائیس) ملین نئے ووٹر کہاں سے آئے کیونکہ یہ Figure (حساب کتاب) ہماری سالانہ آبادی میں بڑھوتری کی نفی کرتا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں اموات کی شرح ایک ہزار افراد میں 7.5 (سات اشاریہ پانچ) فی صد ہے۔ اس کلیے کے مطابق ملک میں پچھلے پانچ سالوں میں تقریباً سات ملین اموات ہونی چاہئیں تھیں۔اور 2.5(دو اشاریہ پانچ) ملین ووٹرز کا ووٹروں کی فہرست سے نکالا جانا اس حوالے سے غلط ثابت ہوتا ہے۔ اس فہرست کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 2018ءکے الیکشن کی فہرست میں پانچ ملین مردہ ووٹر بھی شامل ہیں۔ اس کی پڑتال آسانی سے کی جاسکتی ہے کیونکہ ہمارے ہسپتالوں اور قبرستانوں میں مرنے والے اور دفن کئے جانے والے افراد کے ناموں اور تعداد کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ غلطی ہے یا سراسر چکر بازی۔
اگریہ دھوکہ دہی پر مشتمل ہے تو اس کا اصل مقصد صرف پانچ ملین جعلی ووٹ کا بھگتنا ہے۔ جس سے ملک میں الیکشن کروانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ بیچارے وہ افراد ہیں جو اس دنیا میں نہیں ہیں یہ شکائت بھی نہیں کرسکتے کہ ہمارے ناموں پر جعلی ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ووٹروں کی فہرست میں 7.5 (سات اشاریہ پانچ) ملین وہ ووٹر بھی شامل ہیں جو غیر ممالک میں مقیم ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے نادرا کے چیئر مین جناب طارق ملک نے ایک Fool Proof یعنی ایسا نظام جس میں غلطی کا امکان ہوتا وہ متعارف کروانے کا اعلان کیا تھا۔ کہ جس کے ذریعے ہاتھ کے انگھوٹھے کے نشان سے ووٹر کی شناخت ہو سکے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو پیش کیا تھا۔ یہ نظام کینڈا، برطانیہ، یو اے ای، امریکہ اور سعودی عرب میں قائم پولنگ سٹیشن میں موجود تھا۔ تاکہ غیر ممالک میں رہنے والے افراد اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ اور ان کی اصل تعداد میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ لیکن بد قسمتی سے اب Electronic Identity Verification (EIV) یعنی برقی تصدیق شناخت استعمال نہیں ہوگا اور اب اس کی جگہہ ووٹر کی شناخت Biometric Verification (BVS) یعنی حیاتی اعداد و شمار سے کی جائے گی اور اس کیلئے Subscriber Identity Modules (SIMS) اگست 2014ءسے استعمال کی جارہی ہیں جو کہ (EIV) نظام کے مقابلے میں دھاندلی کا سبب بنے گا۔ کیونکہ ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اب 22 (بائیس) ملین نئے ووٹر نئی فہرست میں شامل کرلئے گئے ہیں۔ اور ان میں کم از کم پانچ ملین فوت شدہ افراد بھی شامل ہیں اور علاوہ ازیں بیرون ملک مقیم 7.5 (سات اشاریہ پانچ) ملین افراد بھی اس میں شامل ہیں۔
قارئین! مندرجہ بالا حقائق اس بات کی صاف طورپر نشان دہی کرتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کتنے صاف شفاف ہونگے اور ان پر عوام کا کتنا اعتماد ہوگا۔ جو کہ کلیدی حیثیت کا حامل ہے مزید برآں خواتین کی پانچ ملین تعداد بھی ووٹر لسٹ سے غائب ہے گو کہ خاص طور پر دیہاتوں میں رہنے والی خواتین اپنے ووٹ کا حق کم استعمال کرتی ہیں مگر پچھلے انتخابات کے برعکس اس دفعہ یہ تعداد بڑھنے کی بجائے اور گھٹ گئی ہے۔ جو کہ حقیقت پر مبنی نظر نہیں آتی۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں کیا ہم آئندہ آنے والی قیادت سے عوام اور ملک کی بہتری اور خوشحالی اور ترقی کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ اگر پھر بھی ایسا ہے تو ہم Fool's Paradiseمیں رہ رہے ہیں اور یہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم کرے۔ آمین۔

ای پیپر دی نیشن