لاہور (نیوز ڈیسک) بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع بدر کے گاﺅں مورکی میں مشتعل ہجوم نے واٹس ایپ کے ذریعے پھیلی افواہ پر 4 مسلمانوں کو بچے اغوا کرنیوالا گروہ قرار دیکر سرعام وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور گوگل سے وابستہ سافٹ ویئر انجینئر محمد اعظم کو ہلاک اور اسکے 3 دوستوں جن میں قطر سے آیا مہمان شامل ہے شدید زخمی کر دیا۔ بتایا گیا ہے کہ حیدر آباد دکن کا رہائشی 32 سالہ محمد اعظم جو گوگل سے وابستہ سافٹ ویئر انجینئر تھا قطر سے آئے اپنے دوست محمد صالح بن عید البدیسی، طلحہ اسماعیل اور مقامی رہائشی محمد بشیر کے ہمراہ سرخ کار پر سیر و تفریح کیلئے بدر کی جھیل کی طرف جا رہا تھا چاروں دوست ایک ہوٹل پر کھانا کھانے رکے۔ اس دوران واٹس ایپ کے ذریعے علاقے میں بچے اغوا کرنیوالے گروہ کے داخل ہونے کی افواہوں سے پاگل ہوئے مشتعل افراد نے چاروں مسلمانوں کو اغوا کار قرار دیکر سرعام تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس دوران بچانے کیلئے آنیوالے پولیس اہلکارورں کو بھی مارا۔ مشتعل ہجوم نے اعظم کی کار تباہ کر دی۔ تشدد کے نتیجہ میں محمد اعظم جاں بحق جبکہ اسکے تینوں دوست شدید زخمی ہو گئے جنہیں بدر کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ محمد بشیر جو مقامی رہائشی ہے مشتعل افراد کو ہاتھ جوڑ جوڑ کر یقین دلاتا رہا کہ وہ اور اسکے دوست اغوا کار نہیں پڑھے لکھے انسان ہیں مگر جنونیوں نے ایک نہ سنی۔ اطلاعات کے مطابق محمد اعظم اور اسکے دوستوں نے کار میں اس علاقے سے نکل کر جانا چاہا مگر انکی تیز رفتار کار ٹرالر سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ واٹس ایپ سے پھیلی افواہ سے متاثرہ ہجوم نے پھر انہیں گھیر لیا اور مارتے پیٹتے رہے۔ پولیس نے بعدازاں کریک ڈاﺅن کرتے ہوئے 40 افراد کو حراست میں لے لیا۔ واضح رہے کہ بھارت کے مختلف حصوں میں ایک سال کے دوران گائے کے ذبیحہ اور بچے اغوا کرنے کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کے وحشیانہ تشدد سے 35 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں اکثر مسلمان ہیں۔
مسلمان انجینئر/ مار ڈالا