خوابوں جیسے مناظر کا نوحہ

کیا منظر ہوگا جب پاکستا ن کے وزیراعظم امریکی صدر کو دیکھیں گے اور دونوں یاد کرینگے کہ چند ماہ پہلے تک دونوں اپنے اپنے ملک میں کتنے مقبول تھے مگر اب عام لوگوں کے ذکر سے دونوں کی صبحیں شروع ہوتی ہیں اور دونوں کی یادیں اچھے دنوں تک پلٹ جاتی ہیں جب وہ ٹویٹ کرتے تھے اور لوگ اس ٹویٹ کو تعویذ سمجھ لیتے تھے۔ ٹویٹ تو اب بھی کرتے ہیں مگر اب فوراً مخالفین اس کا جواب اس اندا زمیں دیتے ہیں کہ حساب برابر ہو جاتا ہے۔پاکستانی وزیراعظم عمران خان تو زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے کریڈٹ پر کچھ اچھے کام بھی ہیں چنانچہ وہ ان کا تذکرہ کرنا نہیں چاہتے جب کہ امریکی صدر کے پاس کامیاب بزنس مین کی سند کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستانی وزیراعظم نے کچھ دوستیاں لگائیں اور نبھائیں بھی مگر اس کا بھی اجرا انھیں اچھی طرح ملا کہ اس دورہ میں وہ مجبور ہوئے کہ اپنی رہائش سفارت خانے میں ہی رکھیں کیونکہ ان کو صرف سفارتی استثنا ہی مل سکتا ہے اس کے علاوہ وہ پاکستان کی طرح ہر طرح کا استثنا امریکہ میں نہیں مل سکتا چنانچہ ن لیگ والوں نے اس استثنا کو بھی اپنی سیاسی ٹون کے ساتھ ہی پیش کیا ہے اور تجزیہ کیا ہے کہ پاکستانی سفیر نے اپنی بیگم کو بھی بلا لیا ہے۔ تو کیا وہ نہ بلاتے کیونکہ ظاہر ہے وہ پی ٹی آئی کے معتبر رکن بھی ہوں گے اور بیگم کواپنے لیڈر کے ساتھ اچھے تعلقات کی خبر دینا کونسی بری بات ہے۔ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینیٹ کو ہدف بنا لیا ہے گھر سے تو وہ عمران خان کو نکالنے چلی تھیں مگر اتفاق چیئرمین سینیٹ کی سیٹ پر ہوا اور دونوں نے اس کیلئے حاصل بزنجو کے نام پر اتفاق کیا ہے۔ پہلے چیئرمین بھی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں اور زرداری کی پسند کہلاتے تھے مگر اس وقت ن لیگ ان سے متفق نہ تھی ۔ دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ پہلے چیئرمین پر بھی ہارس ٹریڈنگ کا الزام تھا اور حاصل بزنجو کی مشترکہ نامزدگی پر بھی حکومتی حلقے دونوں بڑی پارٹیوں پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ تو وزیراعظم کو چین نہ لینے دینا ہے کہ کیوں آرام سے رہ رہے ہیں۔ باقی یہ سب جانتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات میںعمران خان کو آخری چوائس قرار دیا گیا اور ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی۔ پیپلزپارٹی کو اپنے دور میں کہے جانے والے ’’انقلابی ‘‘ اعمال کی ’’انقلابی‘‘ سزا تو اس وقت شروع ہوئی جب ن لیگ کے کافی سارے راہنما نیب نے دھر لیے۔ اس کو برابر کرنے کیلئے پیپلزپارٹی پر ہاتھ ڈالنا ضروری تھا بلکہ اس کو برابر کرنے کیلئے پی ٹی آئی کو خود پہ بھی ہاتھ ڈالنا پڑااور اپنے ایک حاضر سروس وزیر اور اہم آدمی علیم خان کو بھی نیب کے حوالے کرنا پڑا۔پچھلے دنوں ایک پروگرام جو لاہور کے ایک اتوار بازار میں دستیاب سستی چیزوں کے بارے میں تھا دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ پروگرام جس جس نے دیکھا وہ اگر تبدیلی آنے پر یقین نہ کرے تو اسکی مرضی کہ سارا کا سارا پروگرام مہنگائی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونیوالی موجودہ حکومت اور خاص طور پرعمران سے نفرت کی دستاویز تھا اور اس میں اگر پیس پوائنٹ تھا تو وہ یقینا ن لیگ کے حصے میں آیا کہ موجودہ مہنگائی سے تنگ لوگوں نے بآواز بلند نوازشریف کو یاد کیا اور اسے ہی اپنا لیڈر قرار دیا۔ ایک تو یہ بات کہ اس دور میں ایسا پروگرام آن ایئر جانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، دوسرا ایک پرائیویٹ چینل پر موجودہ حکومت کے خلاف چلنے والا یہ پروگرام اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کو تباہ و برباد کرکے سابقہ حکومتوں کے نیک اعمال کو پرموٹ کرنے کی نیت سے تیار کیا گیا تھا اور اینکر کے ضمنی سوالات بھی اس پس منظر کے حامل تھے۔
کتابوں میں ڈاکٹر منظور اعجاز کی کتاب ’’انقلاب جو آچکا ہے‘‘ اس ہفتے کی کتاب ہے۔ لینے تو ہم ان کی خودنوشت گئے تھے مگر وہ نہ مل سکی کہ ہاتھوں ہاتھ نکل گئی ہو گی مگر ان کی یہ یادیں ہم ’’باراں ماہ‘‘ میں پنجابی زبان میں دیکھ چکے ہیں اس لیے وہ فوراً ایک ناکام انقلابی کی طرح ایک ایسے انقلاب کے بارے میں کتاب خرید لی جو آ چکا ہے اور اس کا پتہ بھی نہ چلا۔
ڈاکٹر صاحب خود بھی امریکہ میں رہائش پذیر ہیں مگر وہاں رہ کر پاکستانی ہیں۔ان موضوعات پر ڈاکٹر صاحب کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کا پاکستان کے عوام اور اشرافیہ کے حوالے سے مطالعہ خاص طور پر پنجابی ادب کے تڑکے کے ساتھ اور انکی جدلیاتی سوچ اور سارے منظرنامے کی بنیاد پر جدید فکر سے انکار ممکن نہیں کہ وہ ہمارے عہد کے یعنی آج کے عہد کے دانشور ہیں اور کالم نگار ہیں۔ ’’باراں ماہ‘‘ میں چھپنے والی ان کی یادیں پڑھ کر سیاسی عہد کے اس دور سے ان کا تعلق سمجھ میں آتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن